سی پیک کے ثمرات اور کراچی
سال 2016ء کو پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم ترین سال کے طور پر یاد کیا جائے گا، اس سال ناصرف پاک چین اقتصادی راہداری کا آغاز ہوا بلکہ اس کی فعالی اور سیکیورٹی جیسے معاملات میں بھی اہم پیشرفت ہوئی، یہاں ہم خاص طور پربات کریں گے کراچی کے حوالے سے سی پیک کے ثمرات کی۔
دسمبر 2016ء کے آخری ہفتے میں سی پیک کے حوالے سے بیجنگ میں ایک میٹنگ ہوئی، یہ دراصل ’’پاک چین مشترکہ تعاون کمیٹی‘‘ کا چھٹا اجلاس تھا جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی، اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ 3 مزید منصوبے سی پیک میں شامل کروانے میں کامیاب ہوئے، یہ 3 منصوبے تھے کراچی سرکلر ریلوے، کیٹی بندر اور خصوصی اقتصادی زون، جن کو سی پیک میں شام کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ ان کی فزیبلیٹی رپورٹ آئندہ تین ماہ میں تیار کرلی جائے گی۔
اس کمیٹی کے اجلاس میں مراد علی شاہ نے کراچی سرکلر ریلوے کی بھرپور انداز میں وکالت کی اور اس کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا، معاملہ یہ ہے کہ کراچی دنیا کے گنجان ترین شہروں میں سے ایک ہے، جس کی موجودہ آبادی (محتاط اندازے کے مطابق) تقریباً دو کروڑ 51 لاکھ ہے، جو کہ ٹوکیو، نئی دہلی، ممبئی، نیویارک، میکسیکو سٹی، منیلا اور جکارتہ سے زیادہ ہے، کراچی کی یہ آبادی 2030ء تک 3 کروڑ 34 لاکھ تک پہنچنے کا امکان ہے، لہٰذا ایک جانب سرمایہ کاری کے بہترین مواقع موجود ہیں تو دوسری جانب اس شہر کے باسیوں کی سفری مشکلات کو دور کرنے کیلئے بھی وقت کا تقاضا ہے کہ اب سرکلر ریلوے جیسے منصوبوں کا آغاز کرکے کراچی کی روشنیوں کو بحال کیا جائے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شہر میں یومیہ سفر کرنے والوں کی تعداد 7 لاکھ سے زائد ہے، 24 فیصد لوگ پبلک ٹرانسپورٹ، 91 فیصد موٹر سائیکل، 1.7 فیصد کنٹریکٹ کیرجز، 21 فیصد ذاتی گاڑیوں اور 8 فیصد لوگ پک اینڈ ڈراپ کے ذریعے سفر کرتے ہیں، ان 7 لاکھ لوگوں کیلئے 6 ہزار سے زائد بسیں تقریباً 300 روٹس پر چلتی ہیں، ان میں سے 85 فیصد بسیں پرانی اور ناقص ہیں، یوں شہر کے 42 فیصد مسافروں کا بوجھ پبلک ٹرانسپورٹ کو اٹھانا پڑتا ہے، اس مسئلے کا حل مؤثر ماس ٹرانزٹ سسٹم ہے اور کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی ہے۔
کراچی سرکلر ریلوے پہلی بار 1964ء میں شروع کیا گیا تھا اور 1984ء تک یہ ٹرانسپورٹ کا مؤثر ذریعہ بنارہا، سرمایہ کاری اور حکومتی عدم دلچسپی کے باعث اس کی حالت ابتر ہوتی گئی، بالآخر اسے 1999ء میں بند کرنا پڑا، جس کے باعث کراچی کے باسی ایک بڑی سہولت سے محروم ہوگئے۔
سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اس منصوبے کی منظوری دے چکے ہیں جس کے بعد اس پر عمل درآمد میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ یا پیچیدگی باقی نہیں، اب اس کے بعد صرف فزیبلیٹی کا مرحلہ اور اگلے مرحلے میں ریلوے کی زمین پر غیر قانونی طور پر قابض عناصر سے قبضہ چھڑانے کا اقدام باقی ہوگا۔
جہاں تک بات ہے کیٹی بندر اور اقتصادی زون کی، تو ان کی ضرورت و اہمیت سے بھی انکار نہیں، اگر دیکھا جائے تو کیٹی بندر، کراچی کے قریب ہے اور ایک طرح سے اس منصوبے سے کراچی کو بھی فائدہ پہنچے گا، چین میں ہونیوالے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سندھ میں دھابیجی اسپیشل اکنامک زون قائم کیا جائے گا، اس سے بھی کراچی مستفید ہوگا کیونکہ یہ کراچی سے 55 کلو میٹر کے فاصلے پر سی پیک این 5 یا ایم 9 کے مشرق میں واقع ہے۔
اس کے علاوہ کراچی تا حیدرآباد (136 کلومیٹر) ایم نائن موٹر وے منصوبہ بھی سی پیک کا اہم حصہ ہے، یہ منصوبہ پاکستان موٹر وے نیٹ ورک کا حصہ ہے جس کے تحت یہ اہم شاہراہ کراچی، حیدرآباد، سکھر اور ملتان سے ہوتی ہوئی لاہور تک جائے گی۔
سی پیک منصوبوں کے علاوہ سندھ کی صوبائی حکومت چین کی متعدد کمپنیوں کے ساتھ مفاہمت کی کئی یادداشتوں پر بھی دستخط کرچکی ہے، جس کے تحت چینی کمپنیاں سندھ میں مزید 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گی، اس سرمایہ کاری کا ایک اہم شعبہ پانی کا ایک بہت بڑا منصوبہ ہوگا جوکہ کراچی کی آئندہ 50 سال کی پانی کی ضرورت پوری کردے گا، اس واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ سے 390 ملین گیلن پانی روزانہ کراچی کو فراہم کیا جاسکے گا، اس کے علاوہ دیگر منصوبوں میں ونڈ پاور، کوڑے سے بجلی بنانے کے منصوبے، بایو ماس کے ذریعے بجلی کے پیداوار، ہائیڈرو پاور، پرانے بجلی گھروں کی از سر نو تعمیر، بجلی کے گرڈ اسٹیشنز کی تعمیر اور اسمارٹ سٹی منصوبہ شامل ہیں۔
امید ہے کہ ان تمام منصوبوں پر رواں سال ہی کام کا آغاز کردیا جائے گا، اگر ان ترقیاتی منصوبوں کو سنجیدگی، خلوص اور شفافیت سے آگے بڑھایا جائے تو سندھ کے عوام کی تقدیر بدل سکتی ہے اور اس صوبے کے دل کراچی کی روشنیاں ایک بار پھر لوٹائی جاسکتی ہیں۔