
مجھے بطور سائیکاٹرسٹ اپنی پریکٹس کا آغاز کئے ہوئے پندرہ سال ہو چکے ہیں ، اب تک میں نے سیکڑوں ذہنی امراض میں مبتلا مریضوں کا علاج کیا ہے، لیکن آج اس نوجوان لڑکی کے کیس نے مجھے عجیب الجھن میں ڈال دیا تھا ۔

ایک سولہ سترہ سال کی لڑکی جو یقینا ذہنی پسماندگی کا شکار تھی وہ اس قدر کرب کے عالم میں تھی کہ بار بار اپنے ہونٹوں کو دانتوں سے کاٹ رہی تھی ، اس کے ہاتھوں کے ناخن بھی منہ سے ہی کترے ہوئے محسوس ہوتے تھے لیکن حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہ اپنے علاج کے لئے اب تک کسی نفسیاتی معالج کے پاس نہیں گئی تھی بلکہ خواب آور گولیوں پر ہی گذارا کر رہی تھی اور اسکی وجہ یہی بتا رہی تھی کہ اسے رات کو نیند نہیں آتی ۔

مسئلہ وہی آج کل کی نوجوان نسل کا کہ بس سوشل میڈیا پر بات چیت کا آغاز ہوا لڑکے نے شادی کے چند خواب دکھائے اور پھر یہ جا وہ جا والا حساب ہوا ۔ میں اس بحث میں نہیں الجھنا چاہتی کہ کون غلط ہے اور کون صیح لیکن محض اتنا کہوں گی کہ یہ ہماری بے انتہا توقعات اور دین سے دوری ہوتی ہے جو ہمیں ان فضول قسم کے معاشقوں میں الجھا دیتی ہے ۔ اگر ہم دیکھیں تو ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی اکثریت دوسروں کی غلطیوں کی سزا بھی خود ہی کو دے رہی ہوتی ہے ۔

خواب آور گولیوں یا سلپنگ پلز کا استعمال ہمارے ہاں اب بہت عام ہو گیا ہے اگر اپنے ملک کی بات کریں تو پاکستان میں سب سے زیادہ ان ادویات کا استعمال فاٹا اور قبائلی علاقہ جات میں ہوتا ہے جس کی بنیادی وجہ وہاں امن و امان کی خراب ترین صورتحال ہے ، اسکی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ فاٹا اور کے پی کے کے علاقے افغانستان سے بے حد قریب ہیں ، افغانستان بھارت کی تیارکردہ خواب آور گولیوں کے لئے ایک بڑی مارکیٹ بن چکا ہے ، ہندوستان کی تیار کردہ یہ ادویات بہت سستی ہوتی ہیں اور امپورٹڈ دوائیوں کے مقابلے میں کم قیمت کی ہوتی ہیں جن سے تمام لوگوں تک ان کی رسائی عام ہو جاتی ہے۔

نیند کی بات کی جائے تو سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کس عمر کے افراد کے لئے کتنے گھنٹے کی نیند ضروری ہوتی ہے ، شیر خوار بچے جو نوزائیدہ ہوں وہ دن میں تقریبا سترہ گھنٹے خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں جبکہ ان سے بڑے بچوں کے لئے نو سے دس گھنٹے کی نیند کافی ہوتی ہے ۔
اسی طرح بالغ افراد محض آٹھ گھنٹے ہی سوئیں تو ان کے لئے بہتر ہوتا ہے ۔ جہاں تک نیند نہ آنے کا تعلق ہے تو اس کی بہت سی وجوہات ہیں امتحانات کا خوف ، بیروزگاری ، جذباتی مسائل ، دوپہر کو زیادہ سونا ، مسلسل سوچنا ، الکوحل یا سگریٹ کا استعمال وغیرہ اہم وجوہات ہیں ۔

ایسے افراد جو ورزش نہیں کرتے ، وزن گھٹانے والی ادویات کا استعمال کرتے ہیں ، شفٹوں میں کام کرتے اور ذیابیطس کے مریض ہیں وہ بھی نیند کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ان ادویات کے استعمال سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کئی اقسام کے کینسر اور ٹیومر جسی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں ، یہ کینسر ناک ، منہ او رسانس کی نالی کے ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کے کھانے سے یہ اعضا زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔

ایسے افراد جو نیند کے لئے ہفتے میں کم ازکم دو مرتبہ یہ گولیاں کھاتے ہیں ان میں عام افراد کے مقابلے میں کینسر اور کئی طرح کے انفیکشن کا خطرہ ڈھائی فیصد تک بڑھ جاتا ہے ۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خواب آور گولیاں تمام تر مسائل کا حل ہیں درحقیقت وہ غلطی پر ہیں کیونکہ ان کے مستقل استعمال سے ان کے موثر ہونے کی صلاحیت پر اثر پڑتا ہے ۔ایک دن کھائیں دوسرے دن تھکاوٹ او ربیزاری محسوس ہونے لگتی ہے اور ان کی مقدار بھی بڑھانا پڑتی ہے ۔

ہمیشہ یاد رکھئے کہ دنیا میں پریشانیوں کا شکار کون نہیں ، سبھی مشکلات سے گذرتے ہیں لیکن ہر ایک کا مسائل کو مختلف انداز سے حل کرنا ہی انھیں دوسروں کی نظر میں بھی مختلف بنا دیتا ہے ۔

اس تصور کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمیشہ سائیکاٹرسٹ ہی آپ کی مشکلات دور کرے گا بالکل نہیں ماہر نفسیات صرف اسئلے ہوتے ہیں کہ وہ آپ کے لئے دوائی تجویز کریں ، آپ کی بات کو سنیں اور آپ کو خود اس قابل بنا دیں کہ آپ زندگی کے چیلنجوں کا سامنا کر سکیں ۔ لہذا زندگی کی خوب صورتیوں سے اس طرح لطف اندوز ہوں کہ آپ کو سکون کے لئے ان مصنوعی سہاروں کی ضرورت نہ پیش آئے۔ سماء