اسلام آباد : سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت جاری ہے، جماعت اسلامی کے وکیل کا کہنا تھا نواز شریف کی گئی تقریر دراصل اعتراف جرم ہے، ثبوت کے طور پر نوازشریف نے 3 تقاریر کیں، عدالت میں نواز شریف نے استثنیٰ مانگا ہے، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے استثنیٰ نہیں آرٹیکل66کے تحت استحقاق مانگا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما کیس کی سماعت ہوئی، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں لارجر بینچ تشکیل دیا گیا ہے، دیگر معزز ججز میں جسٹس عظمت سعید شیخ ، جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد آج جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف اپنے دلائل دے رہے ہیں، درخواست گزار تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ کے وکلاء کے دلائل کے بعد وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے گزشتہ روز اپنے دلائل مکمل کیے۔

آج ہونے والی سماعت میں جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے، انہیں نااہل قرار دیا جائے، وزیراعظم کی تقرر اعتراف جرم ہے، وزیراعظم نے تقریر میں فلیٹس کی ملکیت کو تسلیم کیا، جس پر جسٹس عظمت کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے تقریر کے کس حصے میں اعتراف کیا ہے وہ دکھا دیں،جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم اگر ملکیت تسلیم کر لیتے تو اتنے دن سماعت ہی نہ ہوتی، جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے ظفر علی شاہ کیس کا حوالہ دیا۔

جسٹس عظمت نے کہا کہ جن باتوں کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ وکلا کے دلائل ہیں عدالتی رائے نہیں، توفیق آصف صاحب کچھ خدا کا خوف کریں، جس پر توفیق آصف نے کہا کہ ظفر علی شاہ کیس کے حوالے سے اپنے دلائل واپس لیتا ہوں،جس پر جسٹس گلزار نے تنبہہ کرتے ہوئے کہا کہ کیس کو اتنی غیرسنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے، جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ میری بات ثابت ہوئی تو دلائل واپس لینے کا فیصلہ واپس لے لوں گا۔

توفیق آصف کی اس بات پر عدالت میں قہقہے بلند ہوگئے،قہقوں پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے اتنی بھی غیر سنجیدہ بات نہیں کی تھی۔ بعد ازاں کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔ یہ پاناما کیس کی مسلسل تیرہویں سماعت تھی۔ سماء