
[video width="640" height="360" mp4="https://i.samaa.tv/wp-content/uploads/sites/11//usr/nfs/sestore3/samaa/vodstore/urdu-digital-library/2016/01/Musadiq-Malik-Sc-Isb-16-01.mp4"][/video]
اسلام آباد : سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت ميں وزيراعظم کے وکيل کو پھر سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ کیس کا ایک حصہ منی لانڈرنگ سے متعلق بھی ہے، رقوم منتقلی کی تفصیلات تو دینا ہوں گی،۔ وزيراعظم کے وکيل نے کہا کہ نوازشريف پر ٹیکس چوری کا الزام غلط ہے، بینک ٹرانزکشن کا ریکارڈ موجود ہے، وکیل کا کہنا تھا کہ مریم نواز اپنے والد کے زیر کفالت نہیں۔
اسلام آباد میں پاناما کے ہنگامے کی آج بھی سماعت ہوئی، وزيراعظم کے وکيل کو آج بھی سخت سوالات کا سامنا رہا، اپنے ریماکس میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس کا ایک حصہ منی لانڈرنگ سے متعلق ہے، آپ کو رقوم منتقلي کي تفصيلات دينا ہوں گي۔

وزيراعظم کے وکيل کا کہنا تھا کہ بینک ٹرانزکشن کا ریکارڈ موجود ہے، ان پر ٹيکس چوري کا الزام غلط ہے، جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ بغیر تصدیق آپ کی دستاویزات تسلیم کیں تو دوسروں کی بھی ماننا پڑیں گی۔

مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کسی تکنیکی نقطے کے پیچھے چھپنے کی کوشش نہیں کروں گا۔ پہلا سوال یہ ہے کیا پاکستان سے کوئی رقم باہر گئی؟

جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اس معاملے کی پہلے بھی تحقیقات ہو چکی ہیں ،تحقیقات میں بعض افراد کے نام بھی سامنے آئے۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان بھی سامنے آیا تھا، اعترافی بیان میں کئی لوگوں کے نام بھی تھے، تکنیکی بنیادوں پر منی لانڈرنگ والی تحقیقات مسترد ہوئیں، نیب نے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں کی۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ حسین نواز کا نیشنل ٹیکس نمبربھی موجود ہے، بینک کے علاوہ تحائف پر انکم ٹیکس لاگو ہوتا ہے، حسین نواز پر الزام لگایا گیا کہ ٹیکس نہیں دیتے، درخواست گزاروں نے تسلیم کیا کہ تحائف بذریعہ بینکس دیے گئے، تمام بینک ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔

وزيراعظم کے وکيل نے عدالت کو بتايا کہ عزيزيہ اسٹيل مل دو ہزار پانچ ميں فروخت ہوئي، جس پر جسٹس اعجاز نے سوال کيا کہ دو ہزار پانچ کے بعد حسن نواز کا کیا کاروبار تھا؟ مخدوم علي خان نے کہا کہ حسن نواز کے کاروبار کی تفصیل ان کے وکیل دیں گے۔ بعد ازاں کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ سماء