پانامہ کیس کی بازگشت
نئے سال میں نئے چیف جسٹس کی موجودگی میں نئے بنچ نے سماعت شروع کی مگر شریف خاندان اور تحریک انصاف دونوں فریقین کی جانب سے پانچ رکنی بنچ کے سامنے کوئی بھی تفصیلات ایسی پیش نہیں کی گئیں۔ جو پچھلی سماعت سے مختلف ہوں۔سماعت شروع ہونے سے ایک روز پہلے ہمیشہ کی طرح عمران خان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ میڈیا کے سامنے ثبوت پیش کئے۔ عمران خان کی طرف سے ہمیشہ کی طرح دعوے کئے گئے کہ اس بار شریف خاندان ماضی میں کی گئی کرپشن کے الزام میں گھر جائیگا۔
حیران کن طور پر تحریک انصاف نے 2013 انتخابات میں ہونیوالی مبینہ دھاندلی کے ثبوتوں کی طرح اس بار بھی ثبوت میڈیا پر تو پیش کئے۔ لیکن عدالت کے سامنے تحریک انصاف کے وکلا حسن اور حسین کے ٹی وی انٹرویز اور وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں تقریر کو ہی بنیاد بناکر لندن فلیٹس شریف خاندان کی جائیداد ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔تحریک انصاف کی طرف سے میڈیا پر پیش کردہ ثبوتوں کو دیکھ کرلگ رہا ہے کہ جو ثبوت میڈیا پر پیش کئے گئے، وہ اور ہیں اور جو ثبوت عدالت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ وہ اور ہیں (جوکہ درحقیقت کچھ ہیں ہی نہیں)۔
تحریک انصاف کے ثبوتوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ تحریک انصاف، میڈیا کو عدالت اور عدالت کو میڈیا سمجھتی ہے اور چونکہ میڈیا پر پیش کئے گئے ثبوت کیلئے کسی حلف کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لئے کسی بھی قسم کے کاغذات کو ثبوت بناکر پیش کردیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ عمران خان میڈیا کے ذریعے پاکستان مسلم لیگ نواز کے خلاف ایک کیس عوام کے سامنے لڑ رہے ہیں۔ جن میں ان کی کوشش ہے کہ وہ اگلے انتخابات سے پہلے نواز لیگ کو کرپٹ ثابت کرتے ہوئے تحریک انصاف کو ہی عوام کی حقیقی جماعت منوانا چاہتے ہیں۔
عمران خان نے ویسے تو یہ وطیرہ 2013 کے انتخابات کے بعد سے ہی اپنا رکھا ہےاور متعدد بار 2013 کے انتخابات میں ہونیوالی مبینہ دھاندلی کے ثبوت میڈیا پر پیش کئے تھے۔ جوکہ بعد ازاں جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش نہیں کئےگئے۔ جس کی وجہ سے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں انتخابات کو کلیئر قرار دیدیا گیا۔اس بار بھی میڈیا پر پیش کئے جانے والے ثبوتوں کو عدالت میں پیش نہیں کیا جارہا اور صرف اور صرف حسن اور حسین کے ٹی وی انٹرویوز اور وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں تقریر کو بنیاد بناتے ہوئے شریف خاندان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی یہ حکمت عملی دیکھ کر لگتا ہے کہ عمران خان سماعت شروع ہونے سے ٹھیک ایک دن پہلے مبینہ ثبوت دکھا کر عدالت پر اثر انداز ہونا چاہتی ہے۔اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے کہ جن انٹرویوز کو تحریک انصاف بنیاد بنا رہی ہے۔ وہی انٹرویوز دینے والے حسن اور حسین کو اپنے والد وزیر اعظم کے ہمراہ کٹہرے میں کھڑا کرکے لندن کے فلیٹس کی ملکیت سے متعلق پوچھ گچھ کرلینی چاہیے۔پانامہ لیکس سماعت کی ابھی تک کی کارروائی میں دونوں فریقین ججز کے سامنے بھیگی بلی کی طرح سہمے رہتے ہیں اور کمرہ عدالت سے باہر آتے ہی مائیکوں سے لیس رپورٹرز کے سامنے گرجنے لگتے ہیں۔
پانامہ لیکس سماعت کی اہمیت اور حساسیت کو دیکھتے ہوئے عدالت کو چاہیے کہ فریقین پر عدالتی کارروائی کے بعد میڈیا میں کسی بھی بیان بازی سے منع کردے۔ اس کے علاوہ فریقین کو پابند کرے کہ اگر کسی فریق کے پاس ثبوت ہیں تو وہ میڈیا پر دکھانے کی بجائے عدالت میں پیش کرے تاکہ ان ثبوتوں کی مدد سے کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے۔ ورنہ دونوں فریقین عدالت میں کچھ اور اور میڈیا میں کچھ اور بیانیہ دے کر عوام کو گمراہ کرتے رہیں گے۔