
شہر میں یہ کس کی واپسی ہے کہ ہر طرف تمام مشینری حرکت میں آگئی،پولیس ہو یا وزیر، کلرک ہو یا جمعدار سب پوری چابق دستی سے کاموں پر لگ گئے۔ وجہ شاید اتنی بڑی نہ ہو جتنی بنا دی گئی، صاحبزادے کی جانب سے اعلان کے ابا حضور 23 دسمبر کو شہر کا رخ کریں گے اور اپنا شاہانہ پڑاؤ ڈالے گئے، یہ خبر تھی کہ گویا آگ کہ آن کی آن میں ملک بھر میں ایسی پھیلی کہ مخالفین نے طنز کی دکانیں کھولیں تو سندھ میں پی پی والوں نے پھرتیاں تیز کر ڈالیں۔ نئے حکم نامے جاری ہوئے تو شہر کا نقشہ ہی تبدیل ہوگیا، ایئرپورٹ سے لے کر موصوف کے محل تک بھرپور تیاریوں کا آغاز ہوا، وہ سڑکیں اور گلیاں جو سالہ سال سے گندگی کا نمونہ تھی، چمکنے لگیں، راستے جو کبھی عوام کیلئے صاف نہ کیے گئے، وہاں دن میں دس بار جھاڑو پھرنے لگی۔

سابق صدر کی وطن واپسی پر والہانہ استقبال کرنے کیلئے مرکزی اور تمام صوبوں کی قیادت کو کراچی پہنچنے کی ہدایت تو کی ہی گئی ہے، وہی 1 لاکھ کارکنوں کو جمع کرنے کا ہدف بھی مقرر کیا گیا ہے۔ یہ شاہانہ قافلہ ایک بجے کے بعد جب کراچی کے اولڈ ٹرمینل سے چلے گا تو شہر کی مرکزی شارع پر عام لوگوں کا پہیہ جام ہوگا، توقع ہے کہ یہ دورانیہ 7 گھنٹے سے زائد کا ہوگا، جس کیلئے اس شہر کے عوام نے تین دن پہلے ہی اپنے اپ کو ذہنی طور پر تیار کرلیا ہے، ہر قسم کی تقریبات اور تفریح اس روز کیلئے ممنوعہ قرار دے دی گئی ہے، گھر کے بڑوں نے تو تمام حضرات کو اس دن اجتماعی چھٹی تک بنانے کی تلقین کردی ہے۔ جیالوں کے جیالے کیلئے شہر میں جگہ جگہ استقبالیہ کیمپس جڑ دیئے گئے ہیں تو کہیں آتشبازی سے آنے والے کے استقبال کی تیاریاں ہیں، کچھ جنونی کارکنوں نے تو صاحب زرداری کی آمد پر اونٹ تک قربان کردیا ہے۔ جیالوں کو دوپہر ایک بجے اولڈ ٹرمینل پہنچنے کی ہدایت کی گئی ہے، جبکہ موصوف کی آمد 3 بجے تک متوقع ہے، کراچی پہنچنے پر رداری عوام کے ٹھاتے مارتے سمندر سے خطاب کریں گے،جس کے بعد وہ بذریعہ ہیلی کاپٹر بلاول ہاؤس روانہ ہونگے۔

پورے شہر میں صرف ایک شخص کی رکھوالی کیلئے 5 ہزار سے زائد پولیس والوں کی دوڑیں لگوائی گئیں ہیں، سیکیورٹی کے ایسے فول پروف انتظامات تو شاید بے نظیر کی آمد پر بھی نہ کیے گئے تھے، تاہم ایسا موقع جب بڑے بڑے اہلکاروں اور افسروں کو 24گھنٹے ڈیوٹی پر رہنے کا ہدایت نامہ جاری ہوا ہو، وہی سب سے اہم پولیس چیف اپنے فرائض کی انجام دہی سے معزول کردیا گیا،، یہ شاید اسی صوبائی حکومت کا کارنامہ ہے کہ جس کے 8 سالہ دور میں صوبے کے 12 آئی جی تبدیل کیے گئے۔ آج بھی یہ یتیم صوبے میں وہی ہو رہا ہے جو گزشتہ ساڑھے آٹھ سال سے ہورہا ہے، موجودہ وزیر اعلیٰ بھی سابق وزیر اعلیٰ کی طرح بے بس ہیں اور حکومت کے فیصلے کہیں اور سے ہورہے ہیں۔ مراد اور قائم میں فرق ہے تو صرف ابتدا کے ناموں کا۔

گزشتہ سال 24جون کو خود ساختہ جلا وطنی کا لیبل لگانے والے زرداری نے واقعی سب پر بھاری ہونے کا مقولہ سچ کر دکھایا، جلا وطنی کے نام پر اپنے دبئی کے محل میں قیام کِیا۔ دُبئی سے لندن ۔ نیویارک اور پھر دُبئی ۔ وہاں بیٹھ کر سندھ حکومت کی ڈنکے کے چوٹ پر ڈوریں ہلاتے رہے اور پارٹی کے عام اجلاس کی صدارت بھی کرتے رہے۔ پارٹی کے اہم ارکان سندھ حکومت کے خرچ پر دُبئی جا کر اپنے مُرشد کا دِیدار کرتے رہے اور حضرت سُلطان باہوؒ کے فلسفے کو سچ ثابت کرتے رہے۔

جہاں یہ سوال حکمرانوں کو پریشان کر رہا ہے وہی دوسرے حلقوں میں بھی یہ بات بازگشت کر رہی ہے کہ کیا واقعی گزشتہ سال 6 جون کو اسلام آباد کے ہوٹل میں ہونے والی تقریب میں جو "اینٹ سے اینٹ بجانے" کی بات کی گئی تھی، زرداری صاحب اسی پر عمل کرنے وطن واپس آرہے ہیں، کیوں کہ اب راحیل شریف کی صورت میں وہ خطرہ ان کی واپسی اور کرپشن کی راہ میں حائل نہیں۔ ہاں ابھی یہ بات واضح تو نہیں کہ”زرداری کی پہلی ترجیح کیا ہوگی!۔ وہ حکمرانوں سے مذاکرات کرنے اُن سے بلاول کے 4 نکات تسلیم کرائیں گے؟ یا سب سے پہلے جرنیلوں کی اینٹ سے اینٹ بجائیں گے؟ ہاں مگر یہ بات ضرور ہے کہ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار سندھ حکومت نے زرداری کو بچانے کیلئے گراؤنڈ تیار کرلیا۔ ڈاکٹرعاصم حسین اور عذیربلوچ کی جے آئی ٹی سے اب زرداری کو کوئی خطرہ نہیں، نہ ہی ان کے خلاف مقدمات ہیں، حکومت سندھ کی جانب سے عذیربلوچ کی جے آئی ٹی سے 42 صفحات او رڈاکٹر عاصم حسین کی جے آئی ٹی سے 18 صفحات نکال دیئے ہیں۔ سابق آرمی چیف کے جانے کے بعد دونوں بڑی جماعتوں میں پھر سے قربتیں بڑھنے لگی ہیں، پیپلزپارٹی کو ن لیگ کی قیادت سے گرین سگنل مل چکا ہے،دونوں جماعتوں میں مثالی ہم آہنگی ہے، دونوں جماعتوں کے درمیان بوسنیا سے رابطہ ہواہے، جس کا سیاسی فائدہ دونوں ہی اٹھائیں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ لیگی قیادت کی ہدایت پروفاقی وزیر اسحقٰ ڈار پی پی رہنما خورشید شاہ کے توسط سے پی پی کے 4مطالبات کو حل کرنے کا راستہ تلاش کرنے اور دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی تعلقات کی بحالی کیلیے پس پردہ کوششوں میں مصروف ہیں، تاہم اگر وفاقی حکومت نے پی پی کے 4مطالبات منظور نہ کیے توپارٹی قیادت27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں منعقدہ جلسہ عام میں حکمراں مسلم لیگ (ن) کیخلاف احتجاجی تحریک یا آئندہ کے لائحہ عمل سمیت مزید کوئی ڈیڈ لائن دینے کا اعلان کرسکتی ہے۔ تحریک کے تحت پی پی وفاق کیخلاف پارلیمنٹ میں احتجاج کے علاوہ جلسے، مظاہرے اور لانگ مارچ کریگی۔ اس احتجاج میں تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کو شامل کرنے کیلئے بھی مزید رابطے کیے جائیں گے، مشترکہ اپوزیشن کا اتحاد قائم کیا جائے گا۔ اگر وفاق نے پی پی کے مطالبات منظور کرنے کیلئے کوئی پالیسی وضع کی تو ن لیگ کیخلاف احتجاج پر پارٹی قیادت نظر ثانی کی پالیسی اختیار کرسکتی ہے، تاہم پی پی کی جانب سے مشترکا اپوزیشن کا اتحاد قائم کی پالیسی برقرار رہیگی ۔
ستائیس دسمبر تک ملک کی سیاست کس کروٹ بیٹھے گی، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ، کیا واقعی اینٹ سے اینٹ بجے گی یا پھر اندر باہر کی ریس جاری رہے گی۔ سماء
