لندن : طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں 40سال سے زائد عمر کے 50 فیصد لوگ گنج پن کا شکار ہوتے ہیں۔
طبی ماہرین نے کہا ہے کہ دنیا بھرمیں 40سال سے زیادہ عمر کے 50فیصد لوگ جزوی یا کلی طور پر گنج پن کا شکار ہوتے ہیں جس کی وجہ مردانہ ہارمونز ہیں جو سر کے اگلے حصے پر موجود بالوں کی جڑوں کو باریک کرکے ختم کر دیتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہیئر ریسٹوریشن سوسائٹی آف پاکستان کی دوسری سالانہ تین روزہ کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس سوسائٹی کے کراچی چیپٹر کی جانب سے نجی ہوٹل میں منعقد کی گئی جو اتوارتک جاری رہے گی۔افتتاحی سیشن کے مہمان خصوصی معروف پلاسٹک سرجن پروفیسر فیض تھے جبکہ صدارت ڈاکٹر ذوالفقار تنیو نے کی۔ دیگر مقررین میں کانفرنس کے چیف آرگنائزر ڈاکٹر طاہر شیخ، سیکریٹری ڈاکٹر حنیف سعید اور استقبالیہ کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر محمد اقبال بھی شامل تھے۔

کینیڈا سے پلاسٹک سرجن ڈاکٹر عارف حسین نے خصوصی شرکت کی۔ماہرین نے کہا کہ عمومی طور پر یہ مرض موروثی ہوتا ہے،بالوں کا علاج کرانا صرف فیشن کے لیے ہی نہیں ہوتا بلکہ بالوں کی کمی یا گنج پن کی وجہ سے بہت سے افراد نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنا اعتماد کھو دیتے ہیں۔ ماہرین نے کہا کہ دنیا میں 40سال کی عمر سے اوپر 50فیصد لوگ جزوی یا کلی طور پر گنج پن کا شکار ہوتے ہیںجس کی بنیادی وجہ مردانہ ہارمونز ہیں جو سر کے اگلے حصے پر موجود بالوں کی جڑوں کو باریک کرتے جاتے ہیں اور بالآخر وہ بال ختم ہو جاتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ مرض موروثی ہوتا ہے۔

سر کے پچھلے حصے اور کانوں کے اوپر والے حصے میں ان مردانہ ہارمونز کو وصول کرنے والے ریسپٹرز موجود نہیں ہوتے جس کی وجہ سے یہ بال نہیں گرتے اور زندگی بھر برقرار رہتے ہیں۔ ہیر ٹرانسپلانٹ میں انہی مستقل بالوں کی جڑوں کو سر کے پچھلے حصے سے نکال کر گنج پن والے حصے میں پیوند کر دیا جاتا ہے جہاں پر یہ برقرار رہتے ہیں اور انسان کی شخصیت کو ایک نیا روپ دیتے ہیں۔ڈاکٹر طاہر شیخ نے بتایا کہ بالوں کا علاج کرانا صرف فیشن کے لیے ہی نہیں ہوتا بلکہ بالوں کی کمی یا گنج پن کی وجہ سے بہت سے افراد نفسیاتی دباو کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنا اعتماد کھو دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں اور جس کی وجہ سے وہ معاشرے میں اپنا بھرپور کردار ادا نہیں کر پاتے۔

ان کا کہنا تھا کہ جلنے یا چوٹ لگنے کی وجہ سے بھی بال چلے جاتے ہیں۔ پلکوں، مونچھوں او رداڑھی کے بال بھی لگائے جا سکتے ہیںجوبالکل پہلے جیسے لگتے ہیں۔ ڈاکٹر حنیف سعید نے کہا کہ وہ ہیر ٹرانسپلانٹ کے ذریعے پاکستان میں میڈیکل ٹورازم کو فروغ دینا چاہتے ہیں جس سے کثیر زرمبادلہ حاصل ہو سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بین الاقوامی معیار کا ہیر ٹرانسپلانٹ ہوتا ہے اور یہاں کے ٹرانسپلانٹ سرجنز کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی بھی بیرون ملک سے ہر ماہ 200مریض پاکستان آکر بالوں کی پیوندکاری کراتے ہیں جن کا تعلق خلیجی ممالک، یورپ ، امریکہ، کینیڈا اورآسٹریلیاوغیرہ سے ہوتا ہے کیونکہ یہ علاج وہاں پاکستان سے 10گنا مہنگا ہے لیکن معیار برابر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کانفرنس کے انعقاد کا بنیادی مقصد اس شعبے میں ہونے والی جدید تکنیک سے آگاہی ہے،اس دوران عام لوگوں کومیڈیا کے ذریعے بالوں کی پیوندکاری (ہیر ٹرانسپلانٹ) کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ کیا جائے گا۔ سماء