سولہ دسمبر، آرمی پبلک اسکول پشاور میں چلنے والی گولیوں سے اٹھارہ کروڑ عوام کا سینہ چھلنی کرنے کا دن، لہو سے فتح کے چراغ روشن کرنے کا دن، بزدل دشمن کو نیست و نابود کرنے کا دن، وہ دن جو 144 خاندانوںپ پر ہمیشہ کیلئے قیامت برپا کرگیا، وہ دن جب 144 چہرے امر ہوگئے وہ دن جب بہنے والے لہو کا ایک ایک قطرہ مادر وطن کے دفاع پر نچھاور ہو کر ہمیشہ کیلئے قوم کی صدا بن گیا۔
کہتے ہیں کہ "جب جوانوں کے کاندھوں پر بزرگوں کے جنازے ہوں تو اسے زمانہ امن کہتے ہیں مگر جب بوڑھے مل کر جوانوں کے لاشے اٹھائیں تو وہ جنگ کا زمانہ ہوتا ہے"، شاید وہ بھی ایک ایسی ہی گھڑی تھی جب بڑی تعداد میں معصوم بچوں کو شہید کردیا گیا،اسے سانحہ کہیں، قیامت یا پھر کسی اور نام سے پکاریں گے؟ تاریخ اس کی گواہ ہے اور تا قیامت گواہ رہے گی۔

سولہ دسمبر بروز جمعہ ملک بھر میں آرمی پبلک اسکول پشاور کے شہداء اور غازیوں پر قیامت صغریٰ گزرے دو سال مکمل ہوگئے ہیں،، ملک میں سولہ دسمبر کا سورج طلوع ہوتے ہی شہداء کی یادیں اشک بن کر آنکھوں سے روا ہوگئیں ہیں، قریہ قریہ شہر شہر ان ننھے مجاہد اور شہداء کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔ مختلف شہروں میں ان ننھے غاریوں اور شہداٗ کو خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا، جو سولہ دسمبر کو پورے دن اپنی آب و تاب کے ساتھ یادوں کے رنگ جمائے گا۔ اس موقع پر شہداء اور غازیوں کے والدین سے ملاقات اور ان سے یکجہتی کا اظہار کیا جائے گا۔

یہ دن ایسے سانحہ میں ڈھل گیا ہے، جب علم کے متلاشی معصوم بچوں نے دہشت گردوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیااورجام شہادت نوش کر کے ساری قوم کو دہشت گردوں کیخلاف ایک کر دیا، اپنے لہو سے فتح کے چراغ جلانے والے ننھے شہداء اور غازیوں نے پوری قوم کو ایک نقطے پر سوچنے پرمجبور کردیا کہ "ابھی نہیں تو کبھی نہیں، یہ غازی عام غازی نہیں، یہ غازی راکھ کی ڈھیر سے اٹھنے والے وہ اس عزم کا نام ہے کہ وہ جہالت کے بتوں کو خاک کردیں گے۔

معصوم فرشتہ صفت بچوں نے شجاعت اور بہادری کی ایسی ایسی داستانیں رقم کیں کہ پوری قوم رہتی دنیا تک ان کی بہادری پر فخر کرے گی۔ پھول جیسے بچوں نے دہشت گردوں کے سفاکانہ وار اپنے سینوں پر جھیل کر دہشتگردوں کو باور کرا دیا کہ اس قوم کا بچہ بچہ کسی جانبازسپاہی سے کم نہیں۔

موت و زیست کے اس معرکے میں عظیم داستانیں رقم کی گئیں کہ جس معرکے میں جہالت کے بت یہ دہشت گرد شکست کھا گئے، مگر وہ اے پی ایس میں تق قیامت جلنے والی شمع کو بھجا نہ سکے اور خود دہشت کے اندھیروں میں نیست و نابود ہوگئے، ننھے پھولوں کے وہ لہو لہان جسم آج بھی اپنی یادوں سے اس قوم کے دل و دماغ میں پوری آب و تاب کیساتھ روشن ہیں، ان غازیوں کا عزم ہے کہ انہیں انتہا پسندی کو مٹانا ہے، ہر بچے کو پڑھانا ہے، وہ 144 چہرے، وہ 144 خاندان وہ 144 کہانیاں زندہ و جاوید ہیں اور رہتی دنیا تک رہیں گے۔
شہداٗ کے نام:
آرمی پبلک سکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی، اساتذہ میں بینش عمر، فرحت بی بی، حفصہ خوش، حاجرہ شیری، سعدیہ گل خٹک ، سحرافشاں، صائمہ زرین طارق، شہناز نعیم ،صوفیہ حجاب، محمد سعید ، نواب علی شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئے ۔

جام شہادت نوش کرنے والے دیگر اسٹاف میں کلرک اکبر زمان ، ڈرائیوراحسان اللہ قریشی ،لیب انچارج مدثرخان ،چوکیدارمحمد بلال، مالی محمد حسین نائب قاصد محمد سمیع ، ہیڈ کلرک محمد شفیق ، لیب انچارج پرویز اختر، سپرنٹنڈنٹ سجاد علی،مالی ظاہرشاہ ،لانس نائیک محمد الطاف ،نائیک ندیم الرحمان اور سپاہی نوید اقبال شامل ہیں۔

ننھے پھولوں میں عبداللہ غنی اعوان، عدنان ارشد خان، احمد علی شاہ، احمد مجتبیٰ ، عمار اقبال ، ارباب صدیق اللہ خان، ارحم خان، اسد عزیز، اویس احمد، باقر علی خان، باسط علی سردار، بلال علی، فہد حسین، فاہدا حمد، فضل الرحیم ، گل شیر ، حامد علی خان، حامد سیف ، حمزہ کامران، حارث نواز ، حسنین شریف خان، حیات اللہ ، ہمایوں اقبال ، محمد فرقان حیدر، محمد معظم علی، مبین اسلم قریشی، محمد اویس ناصر، محمد غسان خان، محمد حماد عزیز ، محمد حارث، محمد خوشنودزیب ، محمد محسن مرتضیٰ، محمد سلمان، محمد شہیر خان، محمد طیب فواد، محمد عزیز علی، محمد عزیر خان، محمد واصف علی خٹک ، نگھیال طارق، رضوان سریر خان، صاجزادہ عمر طارق، سیف اللہ درانی ، شہزاد اعجاز، شاہ زیب ، شیر نواز، شہو عالم، سید حسنین علی شاہ، سید مجاہد علی شاہ، سید مجاہد حسین شاہ، تنویر حسین ، عمیر ارشد، اسامہ بن طارق، وہاب الدین، یاسر اللہ ، زرغام مظہر، ذیشان شفیق ، ضیاء الاسلام ، آمش سلمان ، ابرار حسین ، عادل شہزاد ، عدنان حسین ، احمد الہٰی ، علی عباس شامل ہیں۔

شہادت کا رتبہ پانے والوں میں عاطف الرحمان ، اذان ، حمزہ علی کاکڑ ، محمد سہیل سردار ، ماہیر رضوان غزالی ، ملک تیمور ، محمد عالیان فوزان، محمد عبداللہ ظفر ، محمد علی خان ، محمد علی رحمان ، محمد عمار خان ، محمد شفقت ، محمد وقار ، مزمل عمر صدیق ، ندیم حسین ، نور اللہ درانی ، آفاق احمد ، سعد الرحمان شاہ، شاہ فہد ، شہباز علی ، شمائل طارق ، سہیل اسلم سید ذوالقرنین ، عزیز احمد ، ذیشان علی ، اسفند خان ، بہرام احمد خان ، فرحان جلال ، حیدر امین ، حسن زیب ، حذیفہ آفتاب شامل ہیں۔

محمد عمر حیات ، ملک اسامہ طاہر اعوان ، مبین شاہ آفریدی، محمد اظہر نصیر، محمد صاحبان ، محمد طاہر، محمد یاسین، محمد ذیشان آفریدی ، اسامہ ظفر ، رفیق رضابنگش، شیان ناصر، شیر شاہ ، سید عبداللہ شاہ، عثمان صادق ، ذیشان احمد ، عبدالا عظم آفریدی ، آئمان خان ، عمران علی ، اسحاق امین ، محمد ابرارزاہد، مہر علی اعظم ، محمد داؤد، محمد عمران ، محمد زین اقبال ، شفیق الرحمان، یاسر اقبال ، ثاقب غنی، وسیم اقبال ، خولہ بی بی شہادت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے۔ سماء