اگر ہوں دشمن آپ اپنے خود
سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے سامنے شریف خاندان کے وکیل اکرم شیخ نے قطری شہزادے حمد جاسم کا ایسا خط پیش کیا جس کے مطابق مرحوم میاں شریف نے قطری خاندان کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی اور اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں حاصل ہونیوالے منافع سے لندن کے 4 فلیٹس خریدے۔
شریف خاندان کے وکیل کی طرف سے پیش کردہ خط کی وجہ سے ناصرف تحریک انصاف حیران رہ گئی بلکہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے چند رہنماء بھی ششدر رہ گئے۔
نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ شریف خاندان کے وکیل کی طرف سے قطری شہزادے کا خط ایسی صورتحال میں پیش کیا گیا جب اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی، موجودہ صورتحال میں شریف خاندان کو تسلی سے تحریک انصاف کے مزید ثبوتوں کا انتظار کرنا چاہئے تھا، الٹا عدالت میں پیش کردہ خط سے ایک نیا پنڈورا باکس کھل گیا۔
سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کی طرف سے جو دستاویزی ثبوت جمع کروائے گئے، ان کے بارے میں سپریم کورٹ کے ججز کے ریمارکس ہی تحریک انصاف کی وکلاء ٹیم کو شرم دلوانے کیلئے کافی تھے، ایسے میں جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ، شریف خاندان کیخلاف کاروائی کرتا دکھائی نہیں دے رہا تو ایسے میں ایک نیا شوشہ چھوڑنے کی کیا ضرورت تھی۔
سماعت کے دوران قطری شہزادے کا خط پیش کرنے پر ججز نے یہ بھی دریافت کیا کہ کیا قطری شہزادہ گواہی دینے عدالت میں پیش ہوسکتے ہیں؟، جواب میں شریف خاندان کے وکیل نے جواب دیا کہ وہ اس بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتے۔
اگر مان بھی لیا جائے کہ قطری شہزادہ شریف خاندان کے اصرار پر عدالت میں پیش ہو بھی جائے تو سوال یہ ہے کہ ممکنہ طور پر عدالت قطری شہزادے سے مرحوم میاں شریف کی سرمایہ کاری کے ثبوت بھی مانگ سکتی ہے اور یہ بھی دریافت کرسکتی ہے کہ میاں شریف نے جتنا پیسہ بھی پاکستان سے قطر بھیجا، اس کا ذریعہ کیا تھا؟، اس کے علاوہ اس کاروبار کی تفصیلات بھی دریافت کی جاسکتی ہیں، جس کے اتنے زیادہ منافع سے شریف خاندان، لندن کے مہنگے ترین علاقے میں 4 فلیٹس خریدنے میں کامیاب ہوا۔
ممکن ہے کہ شریف خاندان کو اس خط کو پیش کرنے کا مشورہ نئے وکیل اکرم شیخ نے دیا ہو، جنہیں سابق وکیل سلمان بٹ کی جگہ تعینات کیا گیا مگر سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کی طرح اکرم شیخ بھی اتنے معصوم اور سیدھے ہیں کہ عدالت کے طلب کئے بغیر ہی قطری شہزادے کا خط پیش کردیا۔
دوسری طرف تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ وہ اتنی بیوقوف کیسے ہوسکتی ہے کہ اخباری تراشوں کی بنیاد پر سپریم کورٹ، شریف خاندان کیخلاف انکوائری کا حکم دے۔
سوشل میڈیا سمیت نیوز چینلز پر سپریم کورٹ کے ججز پر یہ تنقید بھی کی جارہی ہے کہ اگر سپریم کورٹ اخباری تراشوں پر سوموٹو ایکشن لے سکتی ہے تو پھر اخباری تراشوں کی بنیاد پر شریف خاندان کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کرسکتی؟۔
اس سوال کا سیدھا سا جواب ہے کہ اخباری تراشوں کی بنیاد پر لئے جانے والے سوموٹو ایکشنز کے بعد متعلقہ فریقین یا پارٹی کو عدالت میں طلب کیا جاتا ہے اور انہیں صفائی دینے کا موقع دیا جاتا ہے، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اخباری تراشے کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے کسی کو سزا سنا دی ہو یا پھر لاپرواہی برتنے والوں کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا ہو۔
شریف خاندان کی طرف سے پیش کردہ خط کے بعد میڈیا میں دیئے جانے والے حسین نواز کے انٹرویوز پر بھی بحث کی جارہی ہے، جن میں لندن کے فلیٹس خریدنے کیلئے ادا کی گئی رقم کی تفصیلات بتائی گئیں۔
مگر پھر سوال وہی ہے کہ ان ٹی وی انٹرویوز کو بھی عدالت میں بطور ثبوت پیش کیا نہیں جاسکتا، لہٰذا حسین نواز نے یا شریف خاندان کے کسی اور رکن نے انٹرویوز میں کچھ بھی کہا ہو، عدالت کیلئے معنی نہیں رکھتا۔
اب شریف خاندان کی طرف سے قطری شہزادے کا خط عدالت میں پیش کرنے کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ اس خط کی وجہ سے شریف خاندان کو ان سوالوں کا جواب بھی دینا پڑے، جو کہ ممکنہ طور پر تحریک انصاف کی قانونی ٹیم اٹھائے گی، اچھا ہوتا کہ اکرم شیخ پہلے تحریک انصاف کو مزید دستاویزی ثبوت جمع کروانے دیتے اور اس خط کو تُرپ کے پتے کے طور پر استعمال کرتے۔