ہوامیں مکس پلیٹ
پاکستانی ایک قوم نہیں کیفیت کا نام ہے ، جوکبھی بھی کسی وقت بھی طاری ہوسکتی ہے ۔ اور اگر یہ کیفیت فضائی سفر کے دوران سوار ہوجائے اور سات سمندر پار تک ساتھ نبھائے ، تو کوک ٹیل اور مکس پلیٹ بننے کا خطرہ خاصی خطرناک حد تک درپیش ہو سکتا ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہوا کہ ایک سال قبل اسلام آباد سے امریکا کیلئے ایک پرواز روانہ ہوئی تھی، اتحاد ائیرویز کا طیارہ چار گھنٹے بعد ابوظہبی میں لینڈ ہوا ۔ دو گھنٹے آرام کے بعد امریکن ائرلائنز کے طیارے نے مسافروں کو بھر کر سولہ سے اٹھارہ گھنٹے کیلئے ٹیک آف کیا،طیارہ کیا تبدیل ہوا مناظر ہی بدل گئے۔ لبنانی اور مصری ائرہوسٹس کہ جگہ اب گوریوں نے کمان سنبھال لی۔
فضاؤں میں اڑتے طیارے میں کافی کی خوشبو پھیلنے لگی ، آرام دہ نشستیں اور طویل سفر،میں نے آٓنکھیں موند کرخواب خرگوش کی تیاری کی ہی تھی کہ اچانک ساتھ بیٹھی پاکستانی معمرخاتون کی خدمت میں ائرہوسٹس آدھمکی ۔ انگریزی میں سوال پوچھنے لگی ، لیکن خاتون کا جواب دینے کا کوئی ارادہ نظر نہ آیا۔ ہم وطن ہونے کے ناطے میں نے اپنی خدمت پیش کی اور خاتون سے دریافت کیا کہ ( کیا آپ کو کچھ چاہیئے تھا جو گھنٹی بجائی ؟ ) جواب ناں ہی نہیں تھا ساتھ یہ بھی فرمایا گیا کہ میں نے تو کسی کو زحمت نہیں دی ۔
خیر طے ہوا کہ شاید غلطی تھی یا پھرغلط فہمی ،خاتون سے گفتگو میں معلوم ہوا کہ انکا تعلق گوجرانوالہ سے ہے ، عمر عزیز کی پچپن بہاروں میں فضائی سفرکا یہ پہلا تجربہ ہے۔ بیٹی امریکا میں ہے ، اسی سے ملنے جارہی ہیں۔ اس دوران کھانا بھی آگیا ،جھٹ پٹ ٹرے کھولی اور باقی باتیں بعد میں کرنے کا اشارہ دے کر مصروف ہوگئیں۔ طبیعت کی خرابی کے ڈر سے میں نے کھانا تو نہیں لیا البتہ سافٹ ڈرنک ضرور طلب کی ۔ دو گھونٹ پی کر گلاس سائیڈ پر رکھ دیا اور دوبارہ آنکھیں بند کرلیں،اچانک کچھ ٹپ ٹپ کرتا محسوس ہوا اورآنکھیں کھلنے پرعلم ہوا کہ سافٹ ڈرنک کا بقیہ گلاس مجھ پر گر چکا تھا۔ غلطی سے ہاتھ لگ گیا ہوگا ، یہ سوچ کرپوچھنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ ابھی کوک کی ٹھنڈک ہی ختم نہ ہوئی تھی کہ مرنڈا نے مکمل کوک ٹیل بنا ڈالا۔
اب کے آنکھیں کھلی تھیں لہذا دیکھا جاسکتا تھا کہ انتہائی نفاست سے گلاس کو دھکا دے کر بچی ہوئی مرنڈا گرائی گئی ہے۔ وجہ جو بھی لیکن خاتون کی جان کر انجان بننے کی ادا دل کو بھا گئی ۔ غصہ تو دور ، الٹاچہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی کہ کس معصومانہ انداز سے خاتون نے گلاس خالی کرنے کا ہنر اپنایا تھا۔ شاید انکے لئے بھرا ہوا گلاس ٹرے کے ساتھ واپس کرنا خلاف آداب تھا ۔ سافٹ ڈرنک تک تو ٹھیک تھا لیکن جس کا ڈر تھا وہی ہوا،کھانا ختم کرنے کا بھی طریقہ کچھ جدا نہ تھا، سولہ گھنٹے میں جتنی بار کھانا ملا اتنی بار خاتون نے بچا ہوا سالن ،رائتہ اور اس سمیت جو کچھ بیگ میں نہ آسکا وہ مجھ پر چوری چھپے اور تھوڑا تھوڑا گرا کر پورا کیا ۔ دوسری جانب طیارے کی تبدیلی نے جہاں باقی فوائد پہنچائے وہاں ایک مشکل بھی ڈال دی ۔ویسٹرن پلین میں ویسٹرن ریسٹ روم تھا ۔ جس میں ہینڈ شاور کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ تھا۔
ایسے میں جب جب خاتون سیٹ سے اٹھیں اور واپس آئیں تو شدت سے اس تبدیلی احساس ہوا ،کھانے اور واش روم جانے کے دوران انہیں جو بھی وقت ملا وہ سیٹ کے سامنے لگی اسکرین کو تکنے میں گذرا۔ ہر تھوڑی دیر بعد سوال آجاتا کہ اب امریکا کتنی دور ہے ؟جواب دینا آسان تھا،لیکن مشکل یہ تھی کہ سوال کے ساتھ مصیبت بھی تشریف لےآتی ۔ اسکرین پرموجود جگمگ کرتے بٹن کو ہرچند منٹوں بعد دبانے کا تجربہ کرنا پسندیدہ مشغلہ بناہوا تھا، ادھر یہ سائنسی تجربہ انجام دیا جاتا اور ادھر ائرہوسٹس نمودار ہوجاتی۔ انگریزی میں ٹر ٹر کرتی ، آنٹی جی تو سرے سے پہنچاننے سے ہی انکار کردیتیں ،گویا انہوں کبھی بٹن کی طرف دیکھا ہی نہ ہو۔ کئی بار سمجھانے کے بعد جب بات نہ بنی تو میں اور ہوائی میزبان خود ہی سمجھ گئے کہ اس مسئلے کا کوئی حل نہیں لہذا میرے ہاتھ اور انکھیں دونوں ہی آٹو گیئر میں آگئے۔جیسے ہی آنٹی کی انگلیاں بٹن کی جانب اسپیڈ بڑھاتی ، میں فورا بریک لگادیتی۔اس کشمکش میں جب جب نیند آنے لگی، آنٹی کی باآواز و بلند دعاؤں نے وہ بھی اڑادی، سمندر کے اوپرسے گزرتے ہوئے طیارے میں لرزش بعد میں اورمیری سیٹ پر پہلے ہوتی ۔خاتون گھبرا کر زوروشور سے تسبیح و درود شروع کردیتیں، جوش و جذبہ دیکھ کر ساتھ والے بھی کریش لینڈنگ کے خوف سے دعاؤں کیلئے ہاتھ اٹھالیتے۔
سات سمندر پارکا سفر اٹھارہ گھنٹے میں تمام ہوا لیکن طیارے میں پیش آنے والی کوک ٹیل اور مکس پلیٹ کی داستان نے ائرپورٹ کے باہر تک ساتھ نہ چھوڑا ۔ لباس پر موجود سالن اور مشروب کے دھبوں اوربو نے آس پاس موجود لوگوں کی حسیں اس قدر چمکا دی تھیں کہ نظریں بس ایک ہی سوال کررہی تھیں کہ جناب لگتا ہے ، اڑتے ہوئے خوب دعوتیں اڑائی گئی ہیں ۔ شکوے شکایات اپنی جگہ ، لیکن ہم وطن کے ساتھ پہلے اورمیرے لئے اخیر ثابت ہونے والے سفر کے آخر میں نصحیت ضرور حاصل ہوئی کہ پاکستانی کیفیت تو بدلنے والی نہیں بس کیس اور کی جانب سے یہ کیفیت خود پر نازل ہونے سے پہلے بچاؤ کا انتظام کرلیا جائے تو بہتر ہوگا ورنہ مکس پلیٹ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔