
ہر سال لاہور اور پنجاب کے ميداني علاقوں ميں دسمبر کے مہينے ميں صبحيں اور شاميں دھندلي ہوجاتي ہيں۔ حد نظر کم ہونے کي وجہ سے فلائٹس يا تو منسوخ ہوجاتي ہيں يا کئی گھنٹوں کے لئے ملتوي۔ سڑکوں پر بھي دھند کي وجہ سے ٹريفک کي رواني متاثر ہوتي ہے اور حادثات ميں ہر سال سرديوں ميں سيکڑوں افراد لقمہ اجل بن جاتے ہيں۔ مگر اس برس تو عجب ہوا ہے۔ نومبر کے شروع ميں ہي لاہور اور وسطي پنجاب کے ديگر شہروں ميں گرد و غبار کي ايک چادر سي تن گئي ہے۔صبح کو تو حد نظر 300 ميٹر سے بھي کم ہو جاتي ہے۔ ہوا ميں ايک عجب سي چبھن ہے جو کہ شہريوں کي آنکھوں کو بري طرح متاثر کر رہي ہے۔ ماہرين ماحوليات کے مطابق گاڑيوں اور کارخانوں کا دھواں اور گردوآلود ايسے ہوا ميں رچ بس گئے ہيں کہ سورج کي روشني بھي چھن چھن کر ہي زمين تک پہنچ رہي ہے۔ لاہور ، فيصل آباد اور گوجرانوالہ ميں سماگ کا مسئلہ حال ہي ميں سامنے آيا ہے۔ اس کي بنيادي وجہ فيکٹريوں سے بغير ٹريٹمنٹ کے دھواں ہوا ميں پھينکنا ہے۔ اور بغير فٹنس کے گاڑيوں کا سڑکوں پر آنا ہے جن کا گہرا دھواں بھي ہوا کا حصہ بن رہا ہے۔۔ تاہم ان ماہرين ماحوليات کے پاس اپني ان باتوں کو ثابت کرنے کے لئے نہ تو کوئي آلات ہيں اور نہ ہي کسي قسم کا علم۔ ہوا کے معيار کو ماپنے کے لئے ايک ہي موبائل ليبارٹري موجود ہے۔ جو کہ ان دنوں لاہور سے باہر ہے۔ ان حالات ميں تو کئي لوگ تو نت نئے سازشي مفروضے سامنے لا رہے ہيں۔

کچھ افراد کے مطابق سرحد پار بھارتي پنجاب ميں موجود تھرمل پاور پلانٹس کے دھوئيں کي وجہ سے لاہور ميں سماگ کي چادر تن گئي ہے۔ جبکہ کچھ تو بہت دور کي کوڑي لارہے ہيں۔ ان کا تو يہ کہنا ہے کہ حال ہي ميں اسلام آباد ميں پي ٹي آئي کے کارکنوں پر چلائے گئي آنسو گيس کي وجہ سے لاہور اور پنجاب کے ديگرعلاقوں ميں ماحولياتي آلودگي بڑھي ہے۔ جس کا اظہار ان دنوں دھند نما کيفيت سے ہو رہا ہے۔

ماہرين موسميات تو ان سازشي مفروضوں کو ماننے کو تيار نہيں۔ وہ تو صرف اس کو گردوغبار کي ايک تہہ ہي سمجھتے ہيں جو کہ خشک موسم کي وجہ سے فضا ميں چھا گئي ہے۔ صرف بارش ہونے کی صورت میں ہی یہ مسئلہ ختم ہوسکتا ہے۔ان کے مطابق تو ابھي يہ سلسلہ نومبر کے دوسرے ہفتے تک جاري رہ سکتا ہے۔ جبکہ دسمبر ميں شديد دھند کے متعدد سلسلے آسکتے ہيں۔ماہرين طب نے تو تجويز کيا ہے کہ چونکہ سماگ پر تو قابو پانا آسان نہيں البتہ اس کے اثرات سے بچا جاسکتا ہے۔بچوں کو بے جا باہر بھيجنے سے روکا جائے اور گھروں کي کھڑکياں اور دروازے بن رکھے جائيں۔ کیوںکہ گردوغبار سے اٹی فضاء کی وجہ سے سانس اور گلے کی بیماریاں بڑھنے کا خدشہ ہے۔

يہ تو ہے کہ دھويں ملي دھند سے بچنے کا وقتي طريقہ۔ مسئلے کا طويل المدت حل تو صرف ايک ہي ہے کہ صنعتوں سے پيدا ہونے والي آلودگي کو روکنے کے لئے جديد ٹيکنالوجي کو اپنايا جائے جيسا کہ يورپي ممالک ميں استعمال کي جارہي ہے۔ ملک ميں کوئلے سے بجلي پيدا کرنے کے منصوبے احتياط سے لگائے جائيں کيونکہ دنيا بھر ميں کوئلے سے بجلي پيدا کرنے کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت بغير وقت ضائع کيے ماحولياتي تحفظ کے لئے اقدامات کيے جائيں تاکہ اپني اگلي نسل کو سماگ کے اثرات سے بچايا جاسکے۔ کيونکہ احتياط ہر لحاظ سے علاج سے بہتر ہے۔ سماء