ملزم جانور
۔۔۔۔۔** تحریر:عاقب منیار **۔۔۔۔۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ جانوروں کو ٹھنڈ، بھوک، پیاس، درد اور ڈر لگ سکتا ہے، انسان خوراک کے علاوہ بھی جانوروں کو کاروبار، کاسمیٹک ٹیسٹ، کھیل، فیشن اور جرم کیلئے استعمال کرتا ہے، بہت سے ایسے معاشرے ہیں جہاں جانوروں کو کچھ نہیں سمجھا جاتا، مالک کے گناہ کی سزا بھی جانوروں کو ملتی ہے، ماسکو کی جیل میں موبائل اسمگل کرنے، برازیل میں ممنوعہ اشیا لے جانے پر بلیاں گرفتار ہوتی ہیں مگر ملزم آزاد رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی چند واقعات ایسے ہوئے ہیں جہاں عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
حال ہی میں اسکاٹ لینڈ کے شہر ڈیونڈی میں مرغی کو سڑک پار کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا، پولیس کا کہنا ہے مرغی کو سڑک پر دیکھ کر ڈرائیورز بریکس لگاتے، جس کے بعد اسے خطرہ قرار دے کر پکڑا گیا ہے، مالک کا معلوم ہونے تک ایک تنظیم مرغی کا خیال رکھے گی۔
ادھر پاکستانی پولیس کے ہاتھ ایسی مرغی لگ جائے تو تھانے پہنچنے سے پہلے روسٹ ہوجاتی اور پھر اسی مردہ حالت میں کہیں فرار بھی ہوجاتی۔
پچھلے سال دسمبر میں امریکی شہر اوکلا ہاما میں پولیس اہلکار نے آوارہ گدھے کو گاڑی میں لفٹ دے کر محفوظ مقام پر پہنچایا، اس کی ویڈیو دنیا بھر میں دیکھی گئی، دوسری طرف پنجاب کے علاقے چنیوٹ میں گدھے کو 3 گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا کیونکہ اس کی ٹکر سے سڑک پر کھڑی پولیس موبائل کا شیشہ ٹوٹ گیا تھا۔
نائیجیریا میں کارنیوال کے دوران 2 نوجوانوں میں تلخ کلامی ہوئی، ڈایو نامی شخص نے عزیز کے پیٹ میں خنجر گھونپا اور فرار ہوگیا، پولیس موقع پر پہنچی اور ملزم کی گرفتاری کے بجائے قریب کھڑی گائے کو حراست میں لے لیا گیا۔
ایک سال پہلے پنجاب میں گدھے پر تشدد کا عجیب واقعہ سامنے آیا، پاک پتن کے رہائشی محمد انور نے پولیس کو بتایا کہ چند لوگوں نے اس کے گدھے کو اغواء کرلیا اور تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں، پولیس نے کارروائی کی اور خاتون کو حراست میں لے لیا۔ پولیس نے بتایا کہ گدھے کی آواز سے خاتون کا بچہ ڈرتا تھا جس پر شوہر اور کزن نے گدھے پر تشدد کیا۔
بات صرف پاکستانی معاشرے میں خامیوں کی نہیں ہورہی، نائیجیریا میں ایک بکرے کو مسلح ڈکیتی کے شبہے میں گرفتار کیا جاتا ہے، پولیس کہتی ہے بکرا ڈاکو ہے جو ٹرک میں سوار مسافروں کو لوٹتا تھا، جادو کے ذریعے یہ ڈاکو اب بکرا بن گیا ہے، لوٹا مال تو نہیں ملتا، بیچارا بکرا ڈاکو سمجھ کر پکڑا جاتا ہے۔
جانوروں پر مظالم کیخلاف آواز اٹھانے والی تنظیموں کی کبھی نہیں سنی جاتی کیونکہ انہیں چلانے والے انسان خود بھی حقوق کے محتاج ہوتے ہیں، جانوروں پر یونہی ظلم ہوتا رہے گا؟۔