
لاہور کے علاقے رائیونڈ میں واقعہ اڈہ پلاٹ پر ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے کامیاب جلسے کے بعد لگ رہا ہے کہ حکومت سے زیادہ اپوزیشن مشکلات میں پھنس گئی ہے، جس کی وجہ عمران خان کی طرف سے اسلام آباد کو بند کردینے کااعلان ہے۔
جلسے کے دوران عمران خان نے اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کوئی بھی پانامہ لیکس کے خلاف تحقیقات کے لئے ان کا ساتھ نہیں دیگا، تو وہ اکیلے ہی اس مقصد کے لئے کھڑیں ہوں گے۔
اس اعلان کے بعد اپوزیشن جماعتوں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی سرفہرست ہے، اس فکر میں مبتلا ہے کہ اگر عمران خان اپنے اس اعلان کے بعد حکومت کو پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لئے اپوزیشن کی مرضی کے ٹی او آرز پر راضی کرلیتے ہیں تو سارا کریڈٹ عمران خان لے جائیں گے اور باقی اپوزیشن جماعتیں منہ تکتے رہ جائیں گی۔

حکومت کے ساتھ ٹی او آرز پر متفق نا ہونے کے بعد تحریک انصاف کے علاوہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے احتجاج کرنے کا اعلان تو کیا تھا۔ مگر عمران خان کے سولو فلائٹ کے اعلان کے بعد متحدہ اپوزیشن کی دیگر جماعتیں بھی عمران خان کا ساتھ یہ کہہ کر چھوڑ گئیں کہ جمہوری روایات انھیں کسی کے گھر پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔
رائیونڈ کے جلسے کے بعد لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اس قدر کامیاب جلسے کی امید نہیں کررہی تھیں اور عمران خان کےاعلان کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی یہ غلط فہمی دور ہوگئی ہے کہ عمران خان عوامی سپورٹ کھو چکے ہیں۔
ایسی صورت حال میں دیگر اپوزیشن جماعتوں کو بھی اپنے کارکنان کو حکومت کے خلاف احتجاج کا لائحہ عمل دینا ہوگا اور اگر اپوزیشن جماعتیں عمران خان کے احتجاج کا حصہ نہیں بنتیں تو اپوزیشن جماعتیں رہی سہی عوامی سپورٹ بھی گنوا بیٹھے گیں۔

عمران خان کے رائیونڈ جلسے سے پہلے سیاسی وچولن شیخ خورشید کے ذریعے پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان عوامی تحریک کو اس جلسے میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی۔ مگر تینوں جماعتوں کی طرف سے آئیں بائیں شائیں کے جوابات موصول ہوئے۔ جلسہ کامیاب ہونے کے بعد انہی تینوں جماعتوں نے کہنا شروع کردیا کہ تحریک انصاف نے ان سے جلسہ میں شریک ہونے کے لئے باضابطہ رابطہ نہیں کیا تھا۔ اگر تحریک انصاف دیگر اپوزیشن جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ چلنے کا کہتی تو وہ یقیناًً اس پر سوچتے۔ دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ایسے بیانات دراصل ان کے اس پچھتاوے کی نشاندہی کرتے ہیں جو انھیں رائیونڈ جلسے میں شرکت ناکر کے ہے۔
موجودہ صورتحال میں پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتیں عمران خان کا ساتھ دینے کا سوچ رہی ہیں۔ مگر اس کے لئے لازمی ہے کہ خاص طور پر پیپلز پارٹی حکومت کی کھلم کھلا مخالفت کرے۔ اس کے لئے یہ بھی لازمی ہے کہ پیپلز پارٹی مفاہمتی سیاست کے نام پر حکومت سے لینے والے سیاسی مفادات لینا بند کردےاور سندھ میں کرپشن کیسز کا سامنا کرے۔

عمران خان کے اس اعلان کے بعد امید ہے کہ سیاسی وچولن شیخ رشید پاکستان مسلم لیگ اور عوامی نیشنل پارٹی کو اس احتجاج کا حصّہ بنانے میں کامیاب ہوجائئں گے۔ جس کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ ماضی کی طرح تحریک انصاف کو ڈاکٹر طاہر القادری کی سپورٹ بھی مل جائیگی۔ جس کا مطلب ہزاروں لوگوں کی اس احتجاج میں شرکت ہوگی۔
ایسی صورتحال میں اصل امتحان پیپلز پارٹی کا ہوگا۔ جوکہ 2018 کے انتخابات سے قبل اپنا کھویا ہوا سیاسی مقام بزریعہ بلاول بھٹو زرداری حاصل کرنا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی اگر اس احتجاج کا حصّہ نہیں بنتی تو یقیناً پیپلز پارٹی کے کارکنان اپنے لیڈروں سے سوال کریں گے۔ جس کا جواب شاید پیپلز پارٹی کے پاس نا ہو۔

دوسری طرف حکومت نے کوشیشیں شروع کردیں ہیں کہ وہ اس عرصے میں پیپلز پارٹی کی مدد سے ایسا قانون لے آئے۔ جس کے ذریعے شریف خاندان کے افراد بھی بچ جائیں اور آئینی طریقے سے معاملہ بھی سلجھ جائے۔
مگر اس بار نہیں لگتا کہ عمران خان کسی بھی طرح کے آئینی لالی پاپ کو اہمیت دیں گے، بلکہ ایسی آئینی ترمیم میں پیپلز پارٹی اور حکومت کا ساتھ، پیپلز پارٹی کے لئے سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا۔