گل مکئی یا مغربی ایجنٹ
تحریر: عدیل زمان
گل مکئی کے نام سے مشہور ہونے والی سوات کی ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کے باوجود سوشل میڈیا پر صرف منفی پوسٹ ہی دیکھنے کو ملتی ہیں، لیکن اس بار ملالہ کے حوالے سے کچھ مثبت خبر سننے میں آئی جسے پاکستانیوں تک ضرور پہنچنا چاہئے اور اس کیلئے سوشل میڈیا سے بہترپلیٹ فارم کوئی ہونہیں سکتا۔

چند روز قبل برطانیہ میں ایک عزیزہ کے ساتھ ملالہ کی ایک تصویر دیکھی، واضح رہے جس خاتون کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے وہ پاکستان کی ایک معروف شخصیت کی بیگم ہیں، اس لئے ان کا نام لینا یہاں مناسب نہیں سمجھتا۔ خیروطن واپسی پران خاتون سےرابطہ کیا، حال احوال کے بعد بے صبری سے ملالہ سے ملاقات کے بارے میں دریافت کیا کہ آنٹی آپ کی ملالہ سے ملاقات کی تصویر دیکھی تھی، کیسی رہی اس سے ملاقات۔ اس سوال کے جواب میں آنٹی نے جو جوابات دیئے ، وہ خلاف توقع تھے۔
خاتون نے بہت ہی شفقت سے بتایا بیٹا بڑی پیاری بچی ہے، بہت عزت دینے والی، اس کے ساتھ کافی طویل ملاقات ہوئی، ہم نے ساتھ میں کھانا بھی کھایا، پاکستان کیلئے بہت مثبت خیالات رکھتی ہے اور مذاقاً کہا بہت ہی اچھی انگریزی بھی بولتی ہے، میں نے پوچھا آنٹی یہاں تو اس کے بارے میں لوگوں کی سوچ انتہائی منفی ہے اور لوگ کہتے ہیں وہ کافی مغرور بھی ہے، میرے سوال کے جواب میں خاتون کا لہجہ تھوڑا تلخ ہوگیا، انہوں نے دوبارہ بولنا شروع کیا، بیٹا لوگ تو بنا کسی کو جانے نہ جانے کیا کیا کہتے رہتے ہیں، وہ بچی انتہائی خاکسار ہے، غرور تو دور کی بات ہے ، کھانا کھانے کے بعد وہ پلیٹیں اٹھا کر لے گئی اور میرے کئی بار منع کرنے کے باوجود بھی برتن دھوئے، کیا ایسی بچی مغرور ہوسکتی ہے جو بڑوں کی عزت کرنے میں اس حد تک آگے ہو؟، خاتون کے اس حوالے کے جواب میں میرے پاس خاموشی کے سواء کچھ نہ تھا، لہٰذا کچھ دیر بعد میں نے دوبارہ ایک اور سوال کیا کہ آنٹی میں نے آخری مرتبہ ملالہ کو ٹی وی پر نوبل انعام ملنے کے بعد ہونے والی تقریر میں دیکھا تھا، اس کا چہرہ اس وقت تک ٹھیک نہیں ہوا تھا، کیا اب بھی ایسا ہی ہے؟ خاتون نے بجھے ہوئے دل کے ساتھ جواب دیا ہاں بیٹا بیچاری بچی کا چہرہ آج بھی ویسا ہی ہے، جسے وہ بار بار اپنے دوپٹے سے ڈھانپتی رہتی ہے۔

آنٹی سے ہوئی اس تمام گفتگو کے بعد میں ساری رات یہ ہی سوچتا رہا کہ ایک بیچاری بچی جو موت کو تقریباً شکست دے کر آگئی، جس کا قصور بھی صرف اتنا تھا کہ اس نے دہشت گردوں کی جانب سے سوات میں ڈھائے جانے والے مظالم کیخلاف آواز بلند کی اور اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا، اپنا ملک چھوڑنا پڑا، معاذ اللہ آج اپنا ٹیڑھا منہ لیکر دنیا میں گھومتی ہے لیکن بدلے میں اگر وہ کچھ خرید سکی تو اپنے ملک کے لوگوں کی نفرت ۔۔۔ ناں کہ محبت۔