کتنے پت جھڑ ابھی باقی ہیں؟
۔۔۔۔۔** تحریر : نسیم خان **۔۔۔۔۔
کوئٹہ میں ہونے والی دہشتگردی نہ تو کسی جنگ کا آغاز ہے اور نہ ہی اختتام، بلکہ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ''عشق کے امتحاں اور بھی ہیں''۔ یہ حملہ عشروں سے جاری بحیثیت قوم ہماری حماقتوں کا نتیجہ اور انٹرنیشنل گریٹ گیم کا حصہ ہے جو اقتصادی راہداری منصوبے کے بعد مزید تیز ہوگئی ہے، ہر حملے کی طرح اس بار بھی الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے، حکمراں جماعت نون لیگ کے بعض اتحادی اس حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں جبکہ ان کے مخالفین اسے صوبے میں ہونیوالی کرپشن، سول سروس میں سفارشی کلچر کے فروغ اور دھاندلی زدہ انتخابی نظام کا منطقی نتیجہ قرار رہے ہیں۔ معقولیت کا تقاضا یہی ہے کہ تصویر کے دونوں رخ دیکھے جائیں، دہشتگردی کو اجتماعی ناکامی سمجھتے ہوئے اجتماعی کامیابی کی کوشش جائے۔
پہلے اس حملے میں سیکیورٹی فورسز کی ناکامی کا جائزہ لیتے ہیں جو بالکل عیاں ہے، 8 کلو بارودی مواد لے کر خودکش حملہ آور اس جگہ اچانک ہرگز نہیں آیا، حملہ آور نے پہلے کہیں ٹریننگ لی ہے، پھر جائے وقوعہ کی ریکی کی ہے، پلاننگ کی ہے، کئی کالز کی ہوں گی اور یقیناً اس کے ساتھ متعدد اور لوگ بھی شامل ہوں گے۔ یہ تمام تر عوامل سیکیورٹی فورسز کی نظروں سے اوجھل رہے تو ناکامی کا اس سے بڑا ثبوت کوئی نہیں۔
بلوچستان میں سول اداروں اور سیاسی جماعتوں کی خامیاں بھی اپنی جگہ موجود ہیں اور صورتحال کی ذمہ داری سے انہیں بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے کروڑوں روپے کی برآمدگی اور مشیر خزانہ خالد لانگو کیخلاف حالیہ کارروائی چاولوں کی دیگ کے چند دانے ہیں جنہیں دیکھ کر دیگ میں موجود مال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کرپشن، میرٹ کا قتل، قبائلی سرداری نظام اور آئین و قانون سے کھلواڑ دہشتگردی کو بنیاد فراہم کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے سیاسی نظام میں ان برائیوں کے خاتمے کیلئے کوئی اقدامات نظر نہیں آتے اور صرف ایک ہی بھونڈی دلیل ہے کہ سسٹم چلے گا تو سب ٹھیک ہوجائے گا، مگر، ’’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘۔ پہلا قدم تو اٹھائیے تاکہ بہتر مستقبل کی اُمید پیدا ہو۔
دراصل اس جنگ کی کامیابی یا ناکامی کسی ایک فریق کی ذمہ داری نہیں، جہاں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو گڈ اور بیڈ کی تفریق ختم کرنا ہوگی تو سیاسی قیادت کو کرپشن اور اقربا پروری چھوڑنا ہوگی، نظام حکومت میں شفافیت لانا ہوگی، دونوں فریقین اس جنگ میں اپنا حصہ ڈالیں گے تو دہشتگردی کا عفریت قابو میں آئے گا ورنہ ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے سے دراصل دہشتگرد ہی مضبوط ہوں گے۔
بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات کے بعد شد و مد سے ہونی والی ایک اور بحث بھی سننے میں آئی ہے اور بعض ’’ترقی پسند ‘‘بلوچستان کے معاملے کو کشمیر سے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں، اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق کے تحت اگرچہ انہیں کچھ بھی کہنے سے روکا نہیں جاسکتا لیکن یہ تین سوال ضرور پوچھے جاسکتے ہیں کہ کیا بلوچستان اقوام متحدہ کے نزدیک متنازعہ علاقہ ہے؟، کیا برصغیر کی تقسیم کے وقت بلوچستان پر پاکستان نے ناجائز قبضہ کیا؟ کیا بلوچستان کی 90 فیصد آبادی پاکستان سے علیحدگی چاہتی ہے؟۔ اگر ان تینوں سوالوں کا جواب اثبات میں ہے تو آپ کا نقطہ نظر سر آنکھوں پر، ورنہ آپ کو اپنی رائے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔
پاکستان اگر کشمیر کا دعویدار ہے تو اس کی ٹھوس بنیاد موجود ہے، کشمیریوں کی سیاسی و اخلاقی حمایت پاکستان کا فرض بھی ہے اور حق بھی کیونکہ اس پر بھارت کا ناجائز قبضہ اور وہ اقوام متحدہ کے نزدیک آج بھی متنازعہ علاقہ ہے جبکہ بلوچستان میں بھارت کی مداخلت، شرارت کے سوا کچھ نہیں، بھارت کے ساتھ جنگ اگرچہ مسئلے کا حل نہیں اور کوئی بھی ذی شعور دو جوہری طاقتوں میں تصادم نہیں چاہے گا مگر ایک فریق اگر آپ کو گھر میں گھس کر مارنے پر تلا ہو تو یقیناً آپ بھی جوابی طور پر ہاتھ اٹھانے کا حق رکھتے ہیں۔ امن پسندی اچھی بات ہے مگر اس کی حد بے حمیتی تک نہیں جانی۔ آخر میں ایک شعر جو حسب حال ہے۔