بیٹا گھر آجاؤ! ماں بلاتی ہے
۔۔۔۔۔** تحریر : نسیم خان **۔۔۔۔۔
وطن عزیز کو درپیش کسی مسئلے کے حل پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے ہر مسئلہ دوسرے مسئلے کے ساتھ جڑا ہوا ہے، قیادت کا فقدان ہے تو وجہ لوگوں میں شعور کی کمی ہے اور شعور کی کمی کی وجہ جہالت اور پسماندگی، ان دونوں برائیوں کا سبب ہے غربت یعنی ایک تسلسل ہے جس نے معاشرے کو جکڑا ہوا ہے۔
بچوں کی گمشدگی کے واقعات بھی انہی مسائل کا نتیجہ ہیں جو غربت، جہالت اور پسماندگی سے جنم لیتے ہیں، حال ہی میں پنجاب میں بچوں کے اغواء سے شروع ہونے والا شور شرابہ اس بات پر منتج ہوا ہے کہ یہ دراصل اغواء نہیں بلکہ گھروں سے بھاگنے کے واقعات ہیں جنہیں پولیس ریکارڈ میں اغواء قرار دیا گیا ہے، اگرچہ بچوں کے حقیقی طور پر اغواء سے متعلق بھی اکا دکا واقعات ہوئے ہیں مگر 99 فیصد سے زائد واقعات میں بچے خود ہی گھروں سے فرار ہوئے اور بعد میں بعض منفی عناصر کے ہتھے چڑھ گئے۔
پولیس کے پاس درخواست آنے پر چونکہ ایف آئی آر کی گنجائش تبھی بنتی ہے کہ گمشدہ بچے کو اغواء شدہ قرار دیا جائے اور اس لئے یہ ساری کنفیوژن پیدا ہوئی اور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا۔
بچے خود گھروں سے بھاگیں یا اغواء ہوں دونوں صورتیں ہی کسی معاشرے کیلئے انتہائی خطرناک ہیں، اعداد و شمار اور کوائف کو مدنظر رکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ گھروں سے بھاگنے والے بیشتر بچے غریب خاندانوں اور پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، مسئلے کی بنیاد غربت اور جہالت میں ہے، والدین معاشی مسائل میں الجھے ہیں اور بچوں کی تعلیم و تربیت پر کوئی توجہ نہیں، گھروں میں ہونیوالے جھگڑے اور والدین کی حقیقی شفقت سے محرومی کا نتیجہ بالآخر یہی ہوتا ہے کہ بچے باغی ہوکر ایڈونچر کرنے نکل پڑتے ہیں، ایسی صورتحال میں اگر وہ جرائم پیشہ گروہوں تک پہنچ جائیں تو ان کا مستقبل تاریک اور واپسی کے راستے مسدود ہوجاتے ہیں، کبھی کبھار یہ بچے جبری مشقت کا بھی شکار ہوتے ہیں تاہم ایسی صورت میں وہ جلد گھروں کو واپس آجاتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2015ء ميں 1134 بچے لاپتہ ہوئے جن ميں سے 1093 واپس آگئے اور ان تمام بچوں کی کہانی تقریباً ایک جیسی ہے، اسی طرح 2016ء ميں اب تک 681 بچوں کی گمشدگی رپورٹ ہوئی اور ان ميں سے بھی 640 گھروں کو لوٹ چکے ہيں، بہرحال بچوں کا اغواء ہو یا گمشدگی دونوں صورتیں ہی سنگین معاملہ ہے، اس سلسلے میں قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان کا ازخود نوٹس ایک احسن اقدام ہے، کیس کی سماعت کے دوران بچوں کے اعضاء نکالے جانے سے متعلق بھی استفسار ہوا تاہم پولیس کے مطابق ایسا صرف 18 سال سے زائد عمر کے بچوں کے ساتھ ہوسکتا ہے اور گمشدہ بچے زیادہ تر کم عمر ہیں۔
اُمید کی جاسکتی ہے کہ عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر بچوں کے تحفظ کے سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے زیادہ مستعدی سے اپنے فرائض کا ادراک کریں گے۔
اس معاملے میں معاشرے کے ہر فرد کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے اردگرد نظر رکھے، غریب اور کم پڑھے لکھے ہمسایوں، رشتہ داروں، ملازمین، ڈرائیوروں اور چوکیداروں کو یہ باور کرایا جائے کہ بچوں کی تربیت کا خیال رکھیں، ورنہ اس کا نتیجہ ہمیشہ کیلئے ان بچوں کے کھو جانے کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔