فیس بک اورآزادی کشمیر

 

kashmirs

بھارت کو کشمیریوں پر مظالم کی تازہ حمایت فیس بک کے مالک مارک زکربرگ کی جانب سے ملی ہے ۔ فیس بک پر بھارتی مظالم کی وڈیو اپ لوڈ کرنا ممنوع قرار پاچکا ہے  اور ان وڈیوز کو فوری طور پر ڈیلیٹ کیا جارہا ہے ۔ کئی اکاؤنٹ بند کردئیے گئے ہیں اور حتی کہ حریت رہنما سید علی گیلانی کا پیغام  بھی ایک میڈیا آرگنائزیشن کے پیج سے ہٹادیا گیا ہے ۔ برہان وانی شہید کی تصویر شیئر کرنا یا بطور پروفائل پکچر لگانا تو فیس بک انتظامیہ کےلیے شائد زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے ۔

ہر کاروباری آدمی کی طرح 33 ارب ڈالر اثاثوں کے مالک مارک زکر برگ کےلیے بھی جدوجہد آزادی کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ بھارت کے ایک ارب انسانوں کی منڈی اس کےلیے اہم ہے۔ کاروباری نقطہ نظر سے یہ فیصلہ شائد درست ہو مگر پھر بھی یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ کوئی شرم ہوتی ہے ، کوئی حیا ہوتی ہے ، مگر دراصل ہے نہیں ۔

KASHMIR SHUT DOWN PKG 15-07

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی تازہ لہر اس وقت شروع ہوئی جب 8  جولائی کو حزب المجاہدین کے 22 سالہ کمانڈر برہان مظفر وانی کو شہید کیا گیا ۔ وادی میں اب مسلسل کرفیو نافذ ہے اور 60 سے زائد افراد شہید اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں ۔ برہان وانی نے نہ صرف آزادی کےلیے عملی جدوجہد کی ، بالکل فیس بک کے محاذ پر بھی کئی نوجوانوں کو اپنا ہم آواز بنایا ۔ شائد برہان وانی شہید کی کامیابیاں ہی فیس بک اور بھارتی حکومت کےلیے اب پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہیں ۔ بین الاقوامی میڈیا میں رپورٹ ہونے والی کئی خبروں کے مطابق امریکہ میں فیس بک کے ملازم بھارتی شہری بھی اس ضمن میں خاصے متحرک ہیں۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو فیس بک کی انتظامیہ کو ایک جائز اور جمہوری جدوجہد کے خلاف فریق بننا قطعی طور پرزیب نہیں دیتا ۔

دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب مسلمان میں سے کروڑوں افراد فیس بک استعمال کررہے ہیں ۔ اگر سوشل میڈیا کے ماہرین ان مسلمانوں کو اپنا ہم آواز بنائیں اور جدوجہد آزادی کشمیر کے حوالے سے کوئی پالیسی بنائیں تو یقینی طور پر فیس بک انتظامیہ اپنا طرز عمل تبدیل کرنے پر مجبور ہوجائے گی مگر مسئلہ وہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا ؟

Kashmir Upd Pkg 13-07

اگر ہم پاکستان کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے لے کر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل تک اور یورپی یونین سے نیوکلیئر سپلائر گروپ تک بیشتر بین الاقوامی ادارے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دیتے آئے ہیں ۔ اگرچہ بین الاقوامی تعلقات میں اخلاقیات کی کچھ زیادہ اہمیت نہیں ہوتی بلکہ صرف مفاد ہی مقدم ہوتا ہے مگر پھر بھی اس صورتحال کی ایک وجہ ہماری ناقص خارجہ پالیسی بھی ہے ۔ عالمی فورمز پر بھارت کے مقابلے میں پاکستان اپنا مقدمہ موثر انداز میں پیش کرنے میں ناکام رہا ہے جس کی وجہ سے عالمی ادارے پاکستان کی بجائے بھارت کی زیادہ سنتے ہیں ۔

INDIA-KASHMIR-PAKISTAN-UNREST

ماضی میں جو ہوا ، سو ہوا ، اب بھی ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں ۔ پاکستانی دفترخارجہ کو فیس بک کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے آزدی ء کشمیر سے متعلق پوسٹوں پر پابندی کا نوٹس لینا چاہیے ۔ فیس بک کی انتظامیہ تک اپنی آواز پہنچانی چاہیے اور سوشل میڈیا ماہرین کی مشاورت سے فیس بک کی پالیسیوں کا توڑ کرنا چاہیے ۔ پرانی نسل کے لوگوں کو شائد ابھی تک احساس نہیں ہورہا کہ سوشل میڈیا بڑے سے بڑا انقلاب لانے کی سکت رکھتا ہے اور اس کا مظاہرہ دنیا میں کئی مقامات پر ہم دیکھ چکے ہیں ۔ خدارا نیند سے جاگ جائیں ۔ فیس بک اب بھی کشمیری حریت پسندوں کا ایک بڑا ہتھیار بن سکتا ہے اور تحریک آزادی کشمیر کو ایک نئی مہمیز دے سکتا ہے ۔ اس محاذ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ یہ نہ ہو کہ ہم سوچتے رہ جائیں اور کشمیر میں آزادی کا بھڑکتا شعلہ ، بھارتی مظالم سے راکھ بن جائے ۔

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div