
صاحبان علم و دانش سمندر کو کوزے میں بند کرنے کےلیے فرماتے ہیں کہ بدترین جمہوریت ، بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے ۔ اس لیے ہم جیسے عامیوں کو یقین کرنا ہی پڑتا ہے ۔ ساتھ یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب اہل پاکستان کے لائف اسٹائل ، انفراسٹکچر ، تعلیم و صحت اور ٹرانسپورٹ سسٹم پر دبئی کے شہری رشک کیا کریں گے ۔ پاکستان کی بدترین جمہوریت ارتقائی منازل طے کرکے بہترین جمہوریت ہوجائے گی اور عرب ریاستوں کی بہترین بادشاہت یا آمریت ناقص نظام حکومت کی وجہ سے بدترین ہوجائے گی ۔

دبئی ، مسقط اور شارجہ میں لوگ پینے کے پانی کو ترسیں گے ، تھانے اور عدالتیں لوگوں کو خوار کریں گی ، ٹارگٹ کلنگ ہوگی اور غیرملکی آنے سے خوفزدہ ہوں گے ۔ ایسا کس سال یا کس صدی میں ہوگا ، یہ ایک ملین ڈالر سوال ہے ۔ پاکستان کے جمہوریت پسند اگر اجازت دیں تو عرض کروں ۔ ایسا اگلے سو سال میں بھی ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ پاکستان کا موجودہ نام نہاد جمہوری نظام ، فوجی آمریت سے زیادہ مختلف نہیں ۔ یہ سسٹم مافیاز کے ہاتھوں یرغمال ہے ۔ لوٹ مار کی مال و دولت رکھنے والوں نے ریاست کے ہر شعبے کو اپنی جیب میں ڈال رکھا ہے ۔ خلق خدا جتنا مرضی شور مچالے ، حکمران مافیا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔ پاناما لیکس پر رسیدیں مانگنے والوں کو سول ڈکٹٰیٹروں نے بین السطور پیغام دے دیا ہے کہ کرلو ، جو کرنا ہے ۔ ماڈل ٹاون کیس بھی آج تک آئین اور قانون کا مذاق اڑا رہا ہے ۔ بلدیاتی الیکشن میں تاخیر اور نمائندوں کے اختیارات پر قدغن بھی شائد پاناما مارکہ جمہوریت کا ہی حسن ہے ۔

پاکستان کی بدترین جمہوریت اور دبئی کی بہترین آمریت کا کھلے ذہن کے ساتھ موازنہ دماغوں پر پڑی کئی گرہیں کھولنے کےلیے کافی ہے ۔ آمریت یا بادشاہت کے باوجود ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہونا اور ڈیلیور کرنا ایسی خوبی ہے جو ہمارے ہاں سول اور فوجی دونوں اقسام کے ’’بادشاہوں‘‘ میں ناپید رہی ہے ۔
دیانتداری سے سوچا جائے تو اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا پارلیمانی جمہوری نظام کی وجہ سے یورپ کے بیشتر ممالک نے ترقی کی ۔ ارتقا اور بہتری کا عمل بتدریج تھا اور آہستہ آہستہ یہ ممالک ترقی کی جانب گامزن ہوئے ۔ پاکستان میں ایسا ہوسکتا ہے اور پارلیمانی نظام میں بہتری کی گنجائش موجود ہے مگر اس کےلیے بنیاد ٹھیک ہونی چاہیے اور سفر کی سمت بھی ۔

اپنی تمام تر امیدوں کا محور پارلیمانی نظام کی بتدریج بہتری کو بنالینا بھی کافی نہیں ۔ دنیا کی تاریخ میں ہمارے سامنے ترقی کےکئی اور ماڈل بھی موجود ہیں جن پر عمل کرکے مختلف ممالک نے دنیا میں اپنا مقام بنایا ہے ۔ ایک ماڈل عوامی انقلاب ہے جو روس اور چین میں آیا ، رائج قوانین اکھاڑ پھینکے گئے ، کئی جانیں ضائع ہوئیں ، سماجی بنیادیں تبدیل ہوئیں اور قوم ترقی کرگئی ۔ ایک ماڈل فرانس کے جنرل ڈیگال اور ترکی کے کمال اتا ترک نے متعارف کرایا ، جس میں فوجی طاقت کے ذریعے قوم پرستی کی جڑیں مضبوط کی گئیں ، بنیادی اصلاحات ہوئیں اور انہیں نافذ کرنے سے ملک ترقی کی ڈگر پر آگیا یا کم ازکم پہلے کی نسبت بہتری آگئی ۔ تیسرا ماڈل پارلیمانی جمہوریت میں بتدریج ترقی ہے جو ہم نے یورپ بھر میں دیکھا ۔
گزارش صرف یہ ہے کہ اگر کچھ لوگ پاکستان میں عوامی انقلاب یا فوجی طاقت سے اصلاحات والے ماڈل کے حق میں ہیں تو وہ جمہوریت یا جمہور کے دشمن ہرگز نہیں ۔ کسی ایک دوا سے مریض کی حالت بہتر نہ ہورہی ہو تو دوا تبدیل کرنے یا سرجری کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہتا ۔ پاکستان کے بیمار سماج کو پارلیمانی جمہوری نظام میں بتدریج بہتری والی دوا مزید 25 سال تک دے کر دیکھنا چاہیے، اگر نتائج نہ ملیں تو پھر سرجری والا آپشن اپنانے میں کوئی حرج نہیں ۔ سماء