عید ایک دن نہیں

18eid عید کی آمد آمد ہے۔ جیسے جیسے رمضان الکریم اختتام کی طرف جا رہا ہے عید کی تیاریاں جوش پکڑ رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی "فرزندانِ اسلام " نے سر پہ سفید ٹوپی چہرے پہ معصومیت اور برکات کو جو چولا پہنا تھا۔ وہ بھی قدرے اترتا سا محسو س ہو رہا ہے۔ کیوں کہ جس طرف نگاہ کریں عجیب ہڑبونگ سی مچی ہے۔ توں تکار، دست و گریباں، گالم گلوچ کا دور رمضان کے آخری عشرے میں دوبارہ سے لوٹتا دکھائی دے رہا ہے کیوں کہ ہر کوئی عید کی تیاریوں میں ایسے مصروف ہے کہ بھول ہی گیا ہے کہ وہ عشرہ اپنی برکتیں بکھیر رہا ہے جس کی طاق راتوں میں ہی قدرو منزلت والی رات پنہاں ہے۔ ہم نے ویسے بھی رمضان کو بس ایک عام مہینہ ہی سمجھ لیا ہے۔ کیوں کہ ہم بظاہر چھوٹی چھوٹی نظر آنے والی ایسی معاشرتی برائیوں سے اجتناب نہیں کرتے جو ہماری عبادات کو شاید ہوا میں معلق رکھنے کا سبب بن جاتی ہیں۔ہم غور نہیں کرتے کہ رمضان المبارک کا مہینہ آخر ہے کیا۔ یہ تو اللہ کا ایسا انعام مہینہ ہے کہ زندگی کے سمندر کی طلاطم خیز لہروں کو حالت سکون میں لے آئے۔ رمضان ایسا بابرکت مہینہ ہے جو ہمارے معاملات زندگی کو ایک خوشگوار ترتیب دے دیتا ہے۔ لیکن ہم غور کریں بھی تو کیوں بس ہم نے پیٹ کی بھوک و پیاس کو شاید رمضان کی روح ۔ 46059792 کچھ ایسا ہی حال یوم عید کا ہے ہمارے لیے۔ یہ دن ہمارے لیے بس نئے لباس پہن کر خوشبوؤں میں بس کر مساجد کا رخ کرنا، اور گھروں میں نت نئے پکوان تیار کرنا، اور ان تمام چیزوں پہ لاکھوں روپے خرچ کر دینے کا ہی نام رہ گیا ہے۔ اگر آپ آج کل بازاروں کی حالت دیکھیں تو " آٹھ لاکھ سے زائد اندرونی مہاجرین" رکھنے والے اس ملک کے بازاروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ ایک ایک لباس کی قمیت اتنی ہے کہ جس سے کسی غریب خاندان کا پورے مہینے کا راشن خریدا جا سکتا ہے ۔ لیکن ہم تو بس رمضان کے بعد پوری طرح عید کے تہوار سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ سو ہم اس دن کی روح کو یکسر نظر انداز کرتے ہیں۔ Auto strike (2)_0 کیا ہم میں سے کسی نے بھی یہ سوچنے کی زحمت کی کہ ہم جب لاکھوں روپے صرف ایک اس دن کی تیاری میں خرچ کر ڈالتے ہیں تو جو بچہ سگنل بند ہوتے ہیں ہماری گاڑی کی طرف دوڑ کر آتا ہے صرف اس خواہش میں کہ گاڑی کا شیشہ صاف کرنے پہ اسے چند روپے مل جائیں گے۔ کیا آپ کے خیال میں وہ بچہ وہ روپے اپنے لباس کے لیے استعمال کرتا ہو گا؟ کیا ایسا نہیں کہ ان چند روپوں سے ہو سکتا ہے اس کے لیے ایک وقت کا کھانا بھی مہیا نہ ہو سکتا ہو؟ اگر ایسا ہے تو پھر کیا ہمارے عید کے تہوار پر خرچ کیے گئے لاکھوں روپے روز آخرت ہمارے لیے پھندہ نہیں بن جائیں گے۔ کیا ہم سے سوال نہیں ہو گا کہ استطاعت رکھنے کے باوجود ہم نے عید کے دن کو "احساس کے دن " کے طور پر کیوں نہیں منایا؟ میں عالم نہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ہمارے خرچ کردہ ایک ایک روپے کا حساب ضرور ہو گا۔ sunday ہم سے سوال ہو گا کہ جب ہم اپنے گھر میں عید کے پکوان تیار کر رہے تھے تو ساتھ والے گھر میں غریب کے بچے بھوکے کیوں سوئے۔ہم میں سے کتنے صاحب حیثیت لوگ ہیں جنہوں نے عید کے لیے اپنے ماتحت کام کرنے والے کسی چائے دینے والے، کسی چپڑاسی، کسی ڈرائیور یا کسی خانساماں کے لیے بھی اپنے جیسا لباس پسند کیا ہو؟ فطرانے کی ادائیگی شوال کا چاند نظر آنے کے بعد کی جاتی ہے۔ جس سے بہت سے غریب عید کی خوشیوں میں مکمل طریقے سے شامل ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ آخری رات اس پوزیشن میں نہیں ہوتے کہ گھر کے افراد کے لیے خریداری کر سکیں۔اسلام نے زکوٰۃ و فطرانے کا نظام اسی لیے دیا کہ وہ لوگ جو استطاعت نہیں رکھتے وہ بھی خوشیاں منا سکیں۔ لہذا اس معاملے پر بھی علماء اپنا کردار اداکریں اور ہماری رہنمائی کریں کہ کوئی ایسی صورت ہو کہ فطرانے کی رقم کی ادائیگی پہلے ہو جائے تا کہ ضرورت مند بھی عید کی خوشیاں صاحب ثروت لوگوں کے ساتھ منا سکیں۔ 67711 ہم سب کو خود سے عہد کرنا ہو گا کہ ہم بطور مسلمان عید کو صرف ایک دن سمجھ کر نہیں گزاریں گے۔ بلکہ اس کو ایک ایسے نظام کے طور پر گزاریں گے جس کا اثر ہمیں آئندہ دنوں میں بھی محسوس ہو گا۔ یوم عید کو ہم ایک ایسا آغاز بنائیں گے جو اس معاشرے کو مثبت روش پر چلانے میں ایک اہم قدم ثابت ہو گا۔ ایک دفعہ کوشش کر کے دیکھیے یہ عہد کر کے آپ دلی طور پر خود کو پرسکون محسوس کریں گے۔ سماء

RAMZAN

eid shopping

Tabool ads will show in this div