
پشاور سے60کلومیٹردور مغرب کی جانب دنیا کا واحد بارڈر جہاں ایک دن میں20ہزار افراد گزرتے ہیں، اس وقت عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بن گیا،جب گزشتہ ہفتے اتوار کی علی آلصبح نام نہاد دوست ملک افغانستان نے بھارتی شہہ اور بھارتی نقشہ قدم پر چل کر پاکستانی حدود میں بلا اشتعال فائرنگ کر ڈالی،جس سے پاک افغان بارڈر کے قریب موجود شمشاد پہاڑی پر آگ بھڑک اٹھی۔ صرف اسی پر بس نہ ہوا افغان درندگی اور وحشیانہ فائرنگ سے ایک میجر علی جواد چنگیزی شہید،جب کہ ایف سی کے لیفٹننٹ سمیت18اہلکار زخمی ہوئے۔۔
طورخم پر سر اٹھانے والا یہ تنازعہ کوئی راتوں رات کھڑا نہیں ہواتھا، بارڈر پر حفاظی اقدامات اور سیکیورٹی سخت کرنیکا فیصلہ آپریشن ضرب عضب کے آغاز پر ہی کرلیا گیا تھا، فیصلے کو مزید تقویت سانحہ اے پی ایس کے بعد ملی، جب دہشتگردوں نے اسی طورخم بارڈر کے ذریعے پاکستان میں گھس کر تعلیم گاہ کو مقتل بنا ڈالا۔

طورخم بارڈر پر گیٹ کی تعمیر سے قبل یہاں ایک بے ہنگم ہجوم ہوتا تھا جو ایک چین کھلتے ہی سرحد کی ایک جانب سے دوسری جانب باآسانی بغیر کسی دستاویزات کے چلاجاتا تھا، نہ کوئی روک ٹوک نہ کوئی چیکنگ اور دستاویزات۔

بارڈر پر بننے والا یہ گیٹ پاکستان اپنی حد سے37میٹر اندر تعمیر کررہا ہے،اس كیلئے افغان حکام سے حکومتی سطح پر ڈیڑھ سال سے باضابطہ مذاکرات کیے جارہے تھے، افغان حکومت نے نہ صرف طورخم بلکہ دیگر سرحدی مقامات پر بھی ایسے ہی انتظامات کو حوصلہ افزا قرار دیا تھا۔ پاکستانی حکام نے یکم جون سے دستاویزات کے بغیر طور خم بارڈر سے افغانستان اور پاکستان سے آنے جانے والے افراد پر پابندی عائد کی تھی اور افغان حکام سے مذاکرات کے بعد گیٹ کی تنصیب شروع کی گئی۔ پاکستانی حکام کی جانب سے بھی سرحد پار کرنے والوں کی چیکنگ اور نگرانی کیلئے افغانستان سے بھی ایسے ہی اقدامات کا تقاضا کیا گیا تھا، تاہم پاکستان نے افغانستان کی جانب سے اس حوالے سے اقدامات نہ ہونے کے بعد 2200 کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد پر خاردار تار لگانے اورآر پار جانے والے لوگوں کی نقل و حمل کو بہتر اور محفوظ بنانے کے لئے بارڈر مینجمنٹ سسٹم متعارف کرایا اور افغان حکام کو آگاہ کیا۔
دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ طے ہوا تھا، جس میں اتفاق کیا گیا تھا کہ اس کی تعمیر رمضان میں شروع ہوگی اور ہر روز افطاری کے بعد تعمیراتی کام شروع کیا جائیگا،فیصلے پر افغان حکومت نے بھی رضا مندی ظاہرکی، تاہم گیٹ کی تعمیر کا کام شروع ہوا تو افغان فورسز نے بلااشتعال فائرنگ کی جس کا پاک فوج نے بھرپور جواب دیا۔

اس سے قبل ایپکس کمیٹی کے اجلاسوں میں بھی باربار اس بات پر زور دیا گیا کہ افغانستان سے آنے والے بغیر کسی شناختی دستاویزات کے لوگوں کی نقل کو حمل کو روکا جائے، جو نہ صرف ملکی معیشت پر بوجھ ہے، بلکہ ایک بڑا سیکیورٹی رسک بھی ہے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ رواں سال کے آغاز پر پاکستان میں مقیم15لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے قیام کی مدت میں مزید دو سال کی توسیع اب تک منظوری کی منتظر ہے، حکومت نے ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے30جون 2016ء تک افغان مہاجرین کے قیام کی مدت میں توسیع کر رکھی ہے اور شاید اب کی بار اس قیام میں مزید توسیع نہ مل سکے۔ اس سے قبل افغان مہاجرین کے قیام کی مدت31دسمبر2015کو ختم ہوگئی تھی،جس میں وزیر اعظم کی منظوری کے بعد 6ماہ کی توسیع کا نوٹیفکیشن11جنوری کو جاری کیا گیا تھا۔

ذرائع کے مطابق ملک بھر میں لاکھوں کی تعداد میں غیر رجسٹرڈ افغان بھی قیام پذیر ہیں جو دہشت گردی سمیت منظم جرائم میں ملوث ہیں ،ان کی تلاش اور ملک بدر کرنے کی ذمہ داری وفاقی وزارت داخلہ اور صوبائی محکمہ داخلہ کو سونپی گئی ہے تاکہ ملک میں دہشت گردی سمیت دیگر جرائم کی وارداتوں پر قاباپایا جا سکے، یہ وجہ ہے کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی نے بھی ببانگ دہل اس بات کا اعلان کردیا ہے کہ پاکستان نے30سال سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کی، تاہم اب ہمارے لیے ممکن نہیں کہ افغان مہاجرین کی مزید میزبانی کر سکیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان، افغان حکومت کی درخواست پر2009ءسے تیس لاکھ سے زائد رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے، کہ افغان حکومت نے ڈھٹائی دکھاتے ہوئے پاکستان سے15لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی مدت قیام میں2020تک قانونی طور پر توسیع کی باضابطہ درخواست بھی کی تھی۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ روس کیخلاف جہاد افغانوں کو پاکستان کے مزید قریب لے آیا اور لاکھوں مہاجرین جنگ کے دوران پاکستان میں پناہ گزین ہوئے اور پاکستان کے ہر کونے میں بسے گئے۔ افغان جہاد دس برس سے زائد جاری رہنے کے بعد اس حد تک تو کامیاب ہوا کہ روسی ریچھ خطے سے واپس ہوا اور اپنا وجود ہی برقرار نہ رکھ سکا، تاہم مگرپھر بھی افغانستان میں امن کبھی لوٹ کر نہ آیا۔

پاکستان افغانستان کے درمیان صرف طورخم ہی نہیں ڈیورنڈ لائن بھی ملک کے قیام سے لیکر آج تک تنازعے کا باعث بنی ہوئی ہے۔ ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنا تو افغان قوم سے اتنی بڑی غداری سمجھی جاتی ہے کہ پاکستان سے قریب ترین تعلق رکھنے والی حزب اسلامی اور بعد میں طالبان قیادت بھی اس پر راضی نہ ہو سکی۔ مسئلہ صرف ڈیورنڈ لائن کا نہیں، مضحکہ خیز طور پر بلوچستان اور کراچی بھی افغانستان کا حصہ قرار دیئے جاتے ہیں۔ افغانستان میں کئی لابیز پاکستان مخالف کام کر رہی ہیں، جو بھارت سے آنے والی درآمدات پر "از کشور ہندوستان" چھپواتی ہے اور کابل سے چلنے والے تمام تر ٹی وی اور ریڈیو چینل اینکرز دن رات پاکستان کو دی جانے والی باقاعدہ گالیوں کو سنسر تک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے،پاکستان مخالف مواد پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا ہر پھیلایا جاتا ہے، افغانستان میں غریب پاکستانی مزدوروں کے گلے کاٹے جاتے ہیں اور پاکستانی سفارت کاروں کا سفارت خانے سے باہر آنا جانا مشکل ہوجاتا ہے۔ افغان ایجنسیوں کا گزشتہ سات دہائیوں کے دوران میں دیا گیا بیانیہ پاکستان میں موجود پختون اور بلوچ قوم پرست جماعتوں کو افغانستان کی عظیم تاریخی حیثیت کے سحر میں مبتلا رکھ کے پاکستان کی حقیقت کوتسلیم کرنے سے آج بھی دور رکھتا ہے۔۔

لیاقت علی خان کی شہادت سے لیکرسوات اور بلوچستان میں لگنے والی آگ کیساتھ ساتھ آج تک دہشتگردی کے مختلف واقعات کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کے تانے بانے پاکستان میں افغان خفیہ ایجنسیوں کے کردار سے جوڑے جا سکتے ہیں،صرف یہ ہی نہیں افغانستان میں بھارت کا بڑھتا اثر و رسوخ بھی خطے کیلئے تباہ کن ثابت ہو رہا ہے،بلوچستان کے علیحدگی پسند اور ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی افغان سرزمین پر نہ صرف کمین گاہیں قائم ہیں بلکہ انہیں افغان اور بھارتی خفیہ ایجینیسز کی سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ افغانستان سوچے کہ کیا اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار کسی بھی طرح پاکستان کو ٹہرانے میں افغان حکومت اور افغان رہنما حق پر ہیں؟کیا افغانستان خطے میں ایک اور جنگ کا متحمل ہو سکتا ہے؟افغان عاقبت نااندیشیوں کی وجہ سے پاکستان میں کئی نسلوں کی زندگیاں اب اجیرن بن چکی ہیں، جن کا بوجھ آئندہ آنے والی کئی دہائیوں تک اٹھانا ہوگا۔

وقت آگیا ہے کہ پاکستان واضح اور کڑک لہجے میں پڑوسی ممالک سمیت پوری دنیا کو واضح کردے کہ پاکستان نے کبھی بھی کسی ملک کے خلاف جارحیت نہیں کی اور اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا کیونکہ پاک فوج وطن عزیز کے چپے چپے کا دفاع کرنا جانتی ہے، جس کا ہر صورت بھرپور دفاع کیا جائیگا، ضرب عضب کی کامیابی کیلئے ملکی بارڈر کو محفوظ بنانے انتہائی ضروری ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اس غیر قانونی دخل اندازی کو روکتے ہوئے دہشتگردوں اور دشمنوں کے گٹھ جوڑ پر ضرب عضب سے کاری ضرب لگائے۔ سماء