افطار یا غذائی دہشتگردی
تحریر : نسیم خان نیازی
رمضان المبارک کو مرغن ، چٹ پٹے کھانوں اور رنگارنگ ڈرنکس کا فیسٹیول بنے شائد دس پندرہ سال ہی ہوئے ہیں ورنہ ماضی میں برتی جانے والی سادگی اور قناعت کی کہانیاں کوئی بھی اپنے بزرگوں سے سن سکتا ہے۔ رمضان کو اب ایک ایسی مہم بنادیا گیا ہے جس میں ہر کوئی انواع و اقسام کی ڈشز سے شکم سیری میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کی ہے۔ "اہل ایمان" کے جذبے کو دیکھتے ہوئے ریسٹورنٹس نے بھی جدید بوفے سسٹم متعارف کرادیئے ہیں جس سے بے تحاشا اور بلا ضرورت کھانے پینے اور رزق کو بے دردی سے ضائع کرنے کی اس مہم کو مزید مہمیز ملی ہے۔
ہم سب کےلیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا رمضان کا یہی پیغام ہے۔ کیا رمضان المبارک کا مقصد کھانے پینے سے شروع ہوکر کھانے پینے پر ہی ختم ہوجاتا ہے؟ قرآن و حدیث میں مسلمانوں کو سادہ طرز زندگی اختیار کرنے، غریب اور نادار افراد کو اپنے دسترخوان سے حصہ دینے اور نمود ونمائش سے روکنے کےلیے کئی بار ہدایت کی گئی ہے۔ افسوسناک بات ہے کہ یہ ہدایات ہم میں سے بیشتر لوگ نظر انداز کرچکے ہیں ۔ معمول کے دنوں میں ہم سے ان معاملات میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو چلیں قابل معافی ہوسکتا ہے مگر رمضان المبارک میں ایسی بے راہ روی شائد اللہ تعالی کے قہر کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
اللہ تعالی کے رزق کی سب سے زیادہ ناقدری ریسٹورنٹس کے بوفے سسٹم میں دیکھنے کو ملتی ہے جب لوگ بڑی مقدار میں کھانا ضائع کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ صاحب حیثیت افراد کےلیے اگرچہ کسی بھی ریسٹورنٹ میں جانا بظاہر کوئی قابل اعتراض بات نہیں مگر وہاں جاکر کھانے کو بلاوجہ ضائع کرنا اللہ تعالی کی نعمتوں کی ناشکری ہے۔ ریسٹورنٹ مالکان سے بات کریں تو وہ انتہائی حیرانی کے ساتھ لوگوں کے اس روئیے کو بیان کرتے ہیں۔ مالکان بتاتے ہیں کہ افطار جیسے بابرکت موقع پر جتنا کھانا کھایا جاتا ہے لوگ تقریباً اتنا ہی اپنی پلیٹوں میں بچا کر چلے جاتے ہیں۔ چونکہ بوفے سسٹم میں ریسٹورنٹ انتظامیہ کسی کو روک ٹوک نہیں سکتی اس لیے رزق کا ضیاع ایک معمول ہے۔
سیاسی و سماجی افطار پارٹیاں بھی بعض اوقات نمود و نمائش کا ذریعہ اور دنیاوی معاملات نپٹانے کا آلہء کار بنی ہوتی ہیں۔ لاکھوں روپے خرچ کرکے صرف ان لوگوں کو مستفید کیا جاتا ہے جو پہلے ہی صاحب حیثیت ہوتے ہیں۔ کسی غریب، بےکس یا نادار کو ایسی پارٹیوں کے قریب سے گزرنے ہی نہیں دیا جاتا۔ پارٹی سجانا تو چلیں ہرکسی کا حق ہے مگر مقصد اگر کار ثواب ہے تو اس کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ افطار کرانے کا ثواب حاصل کرنے کےلیے آپ کو ان لوگوں تک پہنچنا چاہیے جو اللہ تعالی کی ان نعمتوں سے محروم ہیں۔ جو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ کاروباری شراکت داروں، اپنے افسروں اور علاقے کے بارسوخ افراد کےلیے دستر خوان سجانا شائد ثواب سے زیادہ بزنس ہے جس سے دنیاوی فائدہ تو مل سکتا ہے لیکن یہ تقویٰ کی نشانی ہرگز نہیں۔
گھروں کی بات کی جائے تو یہ واضح ہے کہ رمضان المبارک میں کچن کے اخراجات عام دنوں سے کافی بڑھ جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کسی شرارتی نے ایک اسٹیٹس دیا جو انتہائی دلچسپ تھا کہ روزے تو اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں مگر پکوڑے کس نے فرض کیے؟ ڈاکٹرز کی نصیحتیں اور مشورے مسلسل نظر انداز کرتے ہوئے ہم میں سے بیشتر لوگ چٹ پٹے کھانے کھا کر نہ صرف اپنی صحت خراب کرنے میں آگے آگے ہیں بلکہ مالی اسراف کے بھی مرتکب ہورہے ہیں۔ ہم سب کو خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہم رمضان المبارک کا مقصد اس کی روح کے مطابق پورا کررہے ہیں؟
ٹی وی چینلز پر چلنی والی رمضان ٹرانسمشن کے ذریعے میڈیا یہ فرض بخوبی ادا کرسکتا ہے کہ وہ لوگوں کی تربیت کرے۔ الٹے، سیدھے گیم شوز کی بجائے لوگوں کو یہ باور کرانا ازحد ضروری ہے کہ رمضان کا مقصد صبر، تحمل، قربانی اور قناعت ہے۔ غذائی دہشتگردی کرکے ہم نہ اپنا بھلا کررہے ہیں اور نہ ہی دین کا۔ امجد اسلام امجد کا ایک شعر بھی کچھ اسی موضوع سے متعلق ہے۔
خدا کا رزق تو ہرگز زمیں پہ کم نہیں تھا
مگر یہ کاٹنے والے ، مگر یہ بانٹنے والے