محمد علی: لیاری سے لوئیس ول تک
جو آیا ہے، اسے جانا ہے، آہوں سسکیوں میں وہ بھی چلا گیا جو "عظیم ترین تھا" پوری دنیا کی آنکھیں لوئیس ول پر ٹکی تھیں سب کے ہیرو کا آخری سفر کیسا ہے کس کس نے کاندھا دیا، کس کس نے شرکت کی۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی محمد علی کے چاہنے والوں کی کمی نہیں "لیاری" والوں کا تو دعوی تھا کہ محمد علی "لیاری کا بیٹا" ہے اور یہ دعوی غلط بھی نہیں لگتا تھا وہاں جو بھی باکسنگ گلووز پہنتا اس کا ایک ہی خواب ہوتا کہ "محمد علی" کی طرح بن جاؤں۔ اولمپک میڈلسٹ پاکستانی حسین شاہ ہو یا پاکستانی نژاد برطانوی باکسر عامر خان سب اس ہیرو کو اپنا روحانی استاد مانتے ہیں۔ لیکن بہت کچھ تھا جو بڑا عجیب لگا عظیم باکسر کے جنازے کے لیے امریکی حکومت نے 15 ہزار ٹکٹس تقسیم کیے لیکن "دھندہ" کرنے والوں نے یہ ٹکٹس بلیک میں فروخت کیے۔
جب پوری دنیا "عظیم باکسر" کے سفر آخرت میں شریک تھی دنیا بھر کے سفیر "میموریل سروس" میں پہنچے لیکن نہ پہنچے تو یونائیٹڈ اسٹیٹس کے صدر ہی نہ پہنچے۔ "لیاری کے بیٹے" کا دعوی کرنے والوں نے ہیرو کا غائبانہ نماز جنازہ چاکیواڑہ میں ادا کیا جس کا اعلان ایک دن پہلے سے کیا جارہا تھا لیکن افسوس اس جنازے میں 50 لوگ بھی شامل نہ تھے۔ حد افسوس کہ اس جنازے میں ایک بھی بین الاقوامی باکسر شریک نہ ہوا۔ ایک غیرمقبول سیاسی پارٹی نے "محمد علی" کے لیے ریلی نکالی لیکن افسوس اس ریلی میں درجن بھر لوگ شامل ہوئے اور انہوں نے صرف اس پارٹی کے پرچم ہی تھام رکھے تھے محمد علی کا فوٹو تک اس ریلی میں نہ تھا۔
ایک اور چیز جو بہت زیادہ پاکستان میں تھی وہ مختلف رپورٹرز کے ٹیلی فون پر بندھنے والا تانتا جس پر کالرز یہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ وہ زندگی میں محمد علی سے ملے لہذا انہیں شہ سرخیوں میں جگہ دی جائے۔ غرض یہ کے "محمد علی" کے گزر جانے سے بہت کچھ بے نقاب ہوا جھوٹی محبتیں بے حجاب ہوئیں چاہت کا دعوی کرنے والے مصروفیت کا رونا روتے رہے۔ لیاری والے ہیرو کے لیے ایسا کچھ نہ کرسکے جو تاریخ میں یاد رکھا جائے۔ اس بے حسی کے ہجوم میں کچھ لوگ تھے جو واقعی ہی "محمد علی" کے چاہنے والے تھے۔ انٹرنیشنل باکسر "جاوید جان" جی جان سے محمد علی کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتے تھے جس کے لیے گذری کے کلب میں انہوں نے شمعیں روشین کیں اور انتقال سے تدفین تک اس کلب میں باکسنگ نہ ہوئی۔ لیاری کا آزاد محمد بلوچ باکسنگ کلب بھی وہ جگہ تھی جہاں حقیقی سوگ منایا گیا اس کلب میں باکسرز روزانہ آتے تھے لیکن ٹریننگ نہیں کرتے تھے بلکہ محمد علی کا سوگ مناتے تھے۔ محمد علی کے قد آور تصاویر تلے اپنے گلوز احتراما رکھ کر شمعیں جلاتے تھے۔
محبت کا دعوی کرنے والوں کا رویہ اپنی جگہ لیکن جو چلا گیا اسے اس سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ جو اس نے کہا تھا وہ سچ ہے اور رہتی دنیا تک سچ ہی رہے گا کہ وہ ’’عظیم ترین ہے۔