بڑھتے انسان ، کم ہوتے مکان

بپ ۱ پاکستان میں رہائشي سہولتوں کي کمي ملک کا سنگين مسئلہ بنتا جارہا ہے اور مکانات کي قلت روز بروز بڑھ رہي ہے۔ زراعت کي زبوں حالي اور ديہات تک ترقي کے ثمرات نہ پہنچنے کے باعث شہروں کي جانب لوگوں کي منتقلي بڑھ رہي ہے جس سے يہ مسئلہ مزيد گھمبير ہورہا ہے ۔ حکومت کی ناقص پالیسیاں ، نجی شعبے کی ناجائز منافع خوری ، بڑھتی ہوئی آبادی ، آئی ڈی پیز کا بحران اور قدرتی آفات بھی مکانات کی قلت کے اہم اسباب ہیں ۔ bp 2 یوں تو ملک بھر میں جگہ جگہ نئی ہاوسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں مگر ان سوسائٹیوں میں معاملہ زیادہ تر پلاٹوں کی خرید وفروخت تک ہی محدود رہتا ہے ۔ پراپرٹی کی دنیا میں بھی مافیا کی من مانیاں عروج پر ہیں اور اس مافیا کی منشا کے مطابق ہی مارکیٹ میں تیزی اور مندی آتی ہے ۔ ان ہاوسنگ سوسائٹیوں میں پلاٹوں کی قیمت اس حد تک چلی گئی ہے کہ کوئی عام آدمی پلاٹ خریدنے اور اس پر مکان تعمیر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا  ۔ نام نہاد سرمایہ کار پلاٹوں کی خرید و فروخت سے کروڑوں روپے کما رہے ہیں اوریہ پلاٹ سالہا سال سے خالی پڑے ہیں ۔ دوسری طرف نئی سے نئی ہاوسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں ۔ bp 3 ماہرين کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان کو تقريباً ايک کروڑ مکانات کي قلت کا سامنا ہے ۔ اس مسئلے کوحل کرنے کےليے ہنگامي اقدامات نہ کيے گئے تو دس سال بعد  مکانوں کي قلت دو کروڑ تک پہنچ جائے گي ۔ ملک ميں ہر سال مجموعي طور پر تعمير ہونے والے مکانات کي تعداد ڈيڑھ سے دو لاکھ ہے جبکہ ہميں ہرسال 10 لاکھ نئے مکانات کي ضرورت ہے ۔ ماہرین کے مطابق ہرسال تقریباً تین لاکھ مکان خستہ حالی کا شکار ہورہے ہیں مگر لوگ ان میں ہی رہنے پر مجبور ہیں ۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں 50 فیصد گھر 30 سال پرانے ہیں جو ایک خطرناک صورتحال ہے ۔ bp 4   مکانات کی قلت کی بنیادی وجہ تو حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندی ہے تاہم پراپرٹی مافیا بھی اس مسئلے کو گھمبیر بنانے میں پیش پیش ہے ۔ ملک میں بننے والی کئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں پلاٹوں کی خرید و فروخت کیے جارہی ہیں اور انہیں آباد کرنے پر توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔ حال ہی میں ایک قومی کانفرنس میں یہ تجویز سامنے آئی کہ حکومت اگر تمام ہاوسنگ سوسائٹیز کو پابند کردے کہ وہ تین سال کے اندر اپنے ہر پلاٹ پر مکان کی تعمیر یقینی بنائیں تو کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ پلاٹوں کی قیمتوں میں جو مصنوعی اضافہ ہے اس کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور لوگوں کو سستے مکان بھی مل سکتے ہیں ۔ مگر اس تجویز پر عمل اس لیے نہیں ہوسکتا کیونکہ پراپرٹی مافیا کا حکومتوں پر بہت اثر و رسوخ ہے ۔ یہ مافیا کوئی ایسی قانون سازی نہیں ہونے دے گا جس سے ان کے مفاد کو زد پڑے ۔ bp 5 رہائشی مکانات کی قلت کی ایک اور وجہ بینکوں کی جانب سے ہاوس فنانسنگ کے شعبے کو نظر انداز کرنا ہے ۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں ہاؤس فنانسنگ کی شرح جی ڈی پی کا ایک فیصد ہے جبکہ بھارت میں یہ شرح 7 فیصد اور ترقی یافتہ ممالک میں 50 فیصد تک ہے ۔ پاکستان میں 15 ہزار روپے سے 30 ہزار روپے کمانے والے شخص کےلیے اگر ہاؤس فنانس کی سہولت مہیا کردی جائے تو صورتحال میں کافی بہتری لائی جاسکتی ہے ۔ حکومت اگر سنجیدہ ہوتو وہ بینکوں کو پابند کرسکتی ہے کہ وہ اس معاملے پر  پالیسی بنائیں شہریوں کو چھت فراہم کرنے کےلیے حکومت اپنے طور پر بھی کئی اقدمات کرسکتی ہے ۔ ملک بھر میں لاکھوں ایکڑ سرکاری زمین بے کار پڑی ہے ۔ بے گھر افراد کو یہ زمین الاٹ کرنے سے بھی کئی مسائل کیے جاسکتے ہیں ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ماضی میں اس مسئلے کے حل کےلیے جتنے بھی منصوبے بنائے گئے وہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے حوصلہ افزا نتائج مہیا نہیں کرسکے ۔ پاکستان کی ہرسیاسی جماعت شہریوں کو چھت دینے کا وعدہ تو کرتی ہے مگر اقتدار کے عرصے میں اس پر عمل نہیں کیا جاتا ۔ روٹی اور کپڑا کے ساتھ مکان دینے کا وعدہ کرنے  والوں سے ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ انہوں نے اس سلسلے میں کیا کیا ؟۔ آشیانہ اسکیم کے تحت بے گھروں کو گھر دینے کے نعرے بھی بہت زور و شور سے لگائے گئے مگر نتیجہ صفر ہے ۔ ووٹروں کو آئندہ انتخابات میں وعدہ شکن حکمرانوں کو ان کے وعدے ضرور یاد دلانا چاہئیں۔ سماء

HOUSES

land revenue

HOUSING SCHEME

Tabool ads will show in this div