بیگانی جنگ میں وزیر دیوانہ
مُلا اختر منصور کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اعلان کیا ہے کہ تمام پاکستانیوں کے شناختی کارڈز کی تصدیق کی جائیگی اور اس کی وجہ ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد ملنے والا پاکستانی شناختی کارڈ اور پاکستانی پاسپورٹ ہے. خُدا خیر کرے، مُلا اختر منصور کو جو کہ ایران سے براستہ نوشکی، بلوچستان پہنچتے ہوئے افغانستان سے اڑنے والے ڈرون کا نشانہ بنا اور ڈرونی ہلاکت کے بعد سارے پاکستان کی عوام کو ایسی مشکل میں ڈال گیا، جس کا شکار ہر 18 سال کی عمر سے زیادہ شخص ہوگا۔
وفاقی وزیر داخلہ نے پہلے تو مُلا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی، مگر جب ڈرون پروف شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بعد از ریموٹی ڈرون حملہ ملا تو وزیر داخلہ صاحب ابلاغی طعنوں کی تاب نا لاتے ہوئے کچھ ٹھوس قدم اٹھانے پر مجبور ہوگئے اور انہوں نے ایسا لوہا توڑ اعلان کیا کہ اب عام پاکستانیوں کو بھی مُلا اختر منصور کی ہلاکت کا خمیازہ بگھتنا پڑے گا، جوکہ نائن الیون کو امریکا پر ہونیوالے حملوں کے بعد سے اس بیگانی جنگ میں اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔
حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ایک عام پیدائشی پاکستانی جب شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بنوانے جاتا ہے تو اس کی ایسے جانچ پڑتال کی جاتی ہے جیسے کہ وہ پاکستانی نہیں بلکہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ایجنٹ ہے، مگر مُلا اختر منصور جیسے دہشتگردوں کو ناصرف شناختی کارڈ فراہم کیا جاتا ہے بلکہ شناختی کارڈ کی بنیاد پر پاسپورٹ بھی دیا جاتا ہے تاکہ وہ بیرون ملک باآسانی سفر کرسکے۔ چوہدری نثار کی طرف سے تمام شناختی کارڈز کی تصدیق کے حکم نے دراصل موجودہ جمہوریت کو ہی مشکوک بنا دیا ہے اور اس کی وجہ یہ کہ اسی شناختی کارڈ کی بنیاد پر انتخابات میں ووٹ ڈالے جاتے ہیں، اگر تو وزیر داخلہ کا خیال ہے کہ مُلا اختر منصور کا شناختی کارڈ جعلی ہوگا تو پھر 2013ء کے عام انتخابات میں پڑنے والے ووٹ بھی جعلی ہوسکتے ہیں، جو کہ شناختی کارڈز کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں، مزید یہ کہ پھر انہیں ووٹوں کے ذریعے بننے والی اسمبلیاں بھی جعلی ہوئیں اور اسمبلیوں کے منتخب کردہ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم بھی۔
بے شک اس کے کہ وزیر داخلہ مُلا اختر منصور کو دیئے جانے والے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی تحقیقات کرواتے اور پتا لگانے کی کوشیش کرتے کہ طالبان سربراہ کو دونوں سرکاری دستاویزات کیسے دی گئیں، وزیر داخلہ نے ایسا حکم دے دیا ہے جوکہ صرف مشکل ہی نہیں بلکہ کافی حد تک ناممکن ہے۔ اس کے علاوہ اطلاعات کے مطابق ملا اختر منصور کو ایران کی طرف سے دی گئی معلومات کی بنیاد پر امریکا نے بذریعہ ڈرون نشانہ بنایا اور چونکہ ایران اور امریکا کے درمیان معاہدہ ہونے کی وجہ سے امریکا ایران کی خودمختاری کا خیال رکھتے ہوئے کسی بھی دہشتگرد کو ایرانی سرزمین پر نشانہ نہیں بنا سکتا۔ اس لئے ملا اختر منصور کو پاکستان کی حدود میں داخل ہونے پر نشانہ بنایا گیا۔
دوسری طرف وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ امریکی ڈرون پاکستانی حدود میں داخل نہیں ہوا اور ڈرون نے افغان سرزمین سے طالبان سربراہ کو نشانہ بنایا، یعنی کہ حملہ ضرور پاکستانی سرزمین پر ہوا مگر حملہ کرنیوالا ڈرون پاکستانی حدود میں نہیں تھا۔ وزیر داخلہ کا یہ بیان سن کر لگتا ہے جیسے کہ اگر ڈرون نے پاکستانی سرزمین سے حملہ کیا ہوتا تو امریکی ڈرون کی ایسی کی تیسی پھیر دی جاتی مگر امریکا کی خوش قسمتی کہ وہ پاکستانی حدود میں داخل نہیں ہوا۔
وزیر داخلہ صاحب، جو ڈرونز آئے روز پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے فاٹا اور خیبر پختونخوا میں داخل ہوکر کارروائی کرتے ہیں، ان کا آپ نے کیا بگاڑ لیا؟، اگر آپ ایک بار بھی امریکی ڈرون کو مار گرائیں تو یقین مانیے امریکا کی ہمت نہیں ہوگی کہ دوبارہ بغیر اجازت پاکستانی سرزمین پر حملہ کرسکے مگر آپ کی حکومت تو صرف اپنے وزیر اعظم کو پانامہ لیکس کی ہونیوالی متوقع تحقیقات میں بے قصور ثابت کروانا چاہتی ہے، ڈرون حملوں کا کیا ہے وہ تو ہوتے ہی رہتے ہیں، باقی رہ گئی شناختی کارڈز کی تصدیق تو وہ بھی بیچاری عوام رو پیِٹ کر کروا ہی لے گی، کیونکہ شناختی کارڈز کسی اور کام آئیں نا آئیں، جگہ جگہ لگائی گئی چیک پوسٹوں پر اپنی شناخت کروانے کے ضرور کام آتا ہے جو کہ آپ نے اب مشکوک بنادیا ہے۔