
دور حاضر کے بیشتر افراد آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ مشرق وسطی میں پھیلی ہوئی بدامنی کی وجہ پندرہ سے بیس سال قبل دنیا میں رونما ہونے والے مختلف واقعات ہیں۔ لیکن صیح معنوں میں مشرق وسطی کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس خطے میں لگنے والی آگ کی اصل وجہ پہلی جنگ عظیم کے دوران طاغوتی قوتوں کی جانب سے کیے گئے وہ فیصلے تھے جس نے مسلمانوں کی سب سے بڑی خلافت سلطنت عثمانیہ کو تقسیم کردیا اور خطے میں فرقہ واریت و لسانیت جیسے عناصر کو فروغ دیا۔ مشرق وسطی میں جاری خانہ جنگی اور بدامنی کے اصل ذمہ داران برطانیہ، سویت یونین (روس) اور فرانس ہیں جوکہ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کے خلاف ایک دوسرے کے اتحادی تھے۔ اس جنگ میں جرمنی کا ساتھ سلطنت عثمانیہ، آسٹریا-ہنگری اور بلغاریہ نے دیا لیکن بدقسمتی سے جرمنی اور اسکے اتحادیوں کو جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

سو سال قبل یعنی 1916 کو پہلی جنگ عظیم کے دوران باطل قوتوں کی جانب سے مسلمانوں کی سب سے بڑی اور آخری خلافت سلطنت عثمانیہ کو تقسیم کرنے کی مکمل منصوبہ بندی کرلی گئی تھی۔ موجودہ دور کا آرمینیا، عراق، شام، اردن، فلسطین، لبنان، قبرص، بلغاریہ، رومانیا، یونان، مکہ اور مصر جیسے ممالک سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے اور بحرہ اسود سے بحرہ روم تک اور بحرہ احمر میں اس سلطنت کا تسلط قائم تھا۔ عثمانی خلافت کو تقسیم کرنے میں سب سے اہم کردار برطانیہ کے مارک سائیکس اور فرانس کے جارجز پیکو کا تھا جن کو برطانوی اور فرانسیسی حکومتوں کی جانب سے اسلئے تعینات کیا گیا تھا تاکہ وہ سلطنت عثمانیہ کی تقسیم کی منصوبہ بندی کرسکیں۔ لہذا 16 مئی 1916 کو ایک خفیہ سائیکس پیکو معاہدہ سرکاری طور پر طے پایا جس میں سلطنت عثمانیہ کے زیر اثر چلنے والے ممالک کو برطانیہ، فرانس اور روس نے بانٹ لیا۔ "معاہدے کی اہم شرائط کے مطابق روس کو بحر اسود سے موصل تک کے درمیانی علاقے میں تقریبا ساٹھ ہزار مربع میل کا علاقہ ملنا تھا اس میں ارض روم، ترکی کا آرمینیا اور کردستان وغیرہ کے علاقے شامل تھے۔ فرانس کو شام کی ساحلی پٹی، ادانہ اور جنوب میں (روس کی مستقبل کی سرحد) تک کے علاقے ملنا قرار پائے۔ برطانیہ کو جنوبی الجزیرہ، بغداد اور فلسطین میں حائفہ اور اکر کی دو بندرگاہیں ملنا قرار پایا۔ فرانس اور برطانیہ کو ملنے والے علاقوں کے درمیان آزاد عرب ریاست قائم کی جائے گی لیکن یہ ریاست بھی فرانسیسی اور برطانوی حلقہ اثر کے تحت ہوگی، فرانسیسی حلقہ اثر میں شام اور موصل کے علاقے تھے جبکہ برطانیہ حلقہ اثر میں فلسطین سے ایرانی سرحد کے علاقے تھے۔ اسکندریہ کو آزاد بندرگاہ جبکہ فلسطین کو بین الاقوامی علاقہ قرار دیا گیا۔ )بحوالہ: جدید ترکی(

پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر اس خفیہ معاہدے پر عمل درآمد ہوا اور سلطنت عثمانیہ کی تقسیم کردی گئی۔ اسطرح تقریبا ساڑھے چھ سو سال تک یورپ پر غالب رہنے والی مسلمانوں کی سب سے بڑی عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد دنیا کے نقشے پر خصوصا مشرق وسطی میں شام اور عراق وجود میں آئے۔ اسکے کچھ عرصے بعد اسرائیل، کویت، فلسطین، اردن اور یمن جیسے ممالک ابھر کر سامنے آئے۔ کیونکہ مشرق وسطی میں قائم کی جانے والی ریاستوں کی بنیاد فرقہ واریت اور لسانیت کی بنیاد پر رکھی گئی تھی اسلئے شام، عراق اور یمن جیسے اہم ممالک آج دنیا میں خانہ جنگی اور بدامنی کا شکار ہیں۔ طاغوتی قوتوں نے صرف تقسیم ہی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اسکے بعد ان ممالک پر دہشتگردی اور ایٹمی ہتھیار رکھنے جیسے الزامات لگا کر ان ممالک کا آرام و سکون برباد کردیا۔ امریکا، برطانیہ اور انکے اتحادیوں نے مل کر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور لاکھوں شہریوں کو قتل کیا۔

حالیہ رپورٹ کے مطابق شام میں گزشتہ پانچ برس سے جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں اب تک 4 لاکھ ستر ہزار شہری ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بدامنی پھیلانے کےلئے مغربی ممالک کی جانب سے سازشوں کا جال مصر، فلسطین، ایران، یمن، لیبیا اور سعودی عرب جیسی مسلم ریاستوں میں بھی بھچایا گیا اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انکو آج اپنا غلام بنا لیا ہے۔ دنیا میں جب عرب بہار کے موقع پر عرب کے کئی ممالک میں تبدیلی دیکھنے میں آئی تو مغربی ممالک کو یہ تبدیلی پسند نہ آئی اور ان ممالک میں آمریت کے ذریعے اپنی مرضی کے فیصلے کروائے اور اسکی پاداش میں ہزاروں لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔

یاد رکھیں مشرق وسطی آج جس خلفشار کا شکار ہیں اسکی وجہ پندرہ سے بیس سال قبل رونما ہونے والے واقعات نہیں بلکہ آج سے سو سال پہلے ہونے والا سائیکس پیکو کا خفیہ معاہدہ ہے جسکے نتیجے میں آج پورا مشرق وسطی بدامنی کا شکار ہے۔ لہذا میری مشرق وسطی سمیت تمام مسلم ممالک سے گزارش ہے کہ مغربی ریاستوں کی سازشوں کو سمجھتے ہوئے فرقہ واریت و لسانیت کی تفریق سے باہر نکل کر آپس میں اتحاد قائم کریں اور عراق، یمن، شام، لیبیا اور فلسطین جیسے مسلم ممالک کے مسائل کو نیک نیتی سے حل کریں۔ یورپی یونین کی طرح او آئی سی کو بھی صیح معنوں میں منظم کرتے ہوئے دہشتگردی جیسے واقعات کے خلاف یک زبان ہوجائے۔ سماء