
کسی بھی ملک کے عروج اور زوال کے اسباب اس ملک کے نوجوان ہوتے ہیں، نوجوانوں کا تعلیم یافتہ اور با شعور ہونا، اس ملک کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے،تاہم آج کا نوجوان خاص طور پر پاکستان میں لائبریری کے نام سے ہی دور بھاگتا ہے، آج سے تقریبا ایک ہزار سال پہلے جب بغداد سائنسی علوم اور سائنسی ایجادات کا مرکز تھا تو اس کہ وجہ وہاں قائم لائبریریوں کا کلیدی کردار تھا،لوگ دور دراز سے علم کے حصول کیلے بغداد آتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ لائبریری علم کے فروغ میں ریڑھ کی ہڈی کی ماند ہوتی ہے، تاہم افسوس کے عصر حاضر کے نوجوان لائبریری سے ایسے دور بھاگتے ہیں، جیسا بچہ دوائی سے اور اگر چلے بھی جائیں تو مقصد مطالعہ نہیں کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ کبھی کبھار تو یہ خیال بھی آتا ہے، کہ سائنسی ترقی نے روایتی علم فنون کے طریقوں کو دیوار سے لگا دیا ہے، جیسے کہ گھر بیٹھے اپنے موبائل یا انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا کی کتابوں تک رسائی، یا سائنسی گیجٹز نے نوجوان طبقے کو حصول علم سے قاصر کردیا۔

کچھ روز قبل جب دارالحکومت اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا تو پارلیمنٹ ہاؤس کے عقب میں قائم شاندار لائبریری بھی گئی، جو ماڈرن سائنسی آلات اور تعمیرات کے حسن سے مزئین ہے، انتہائی پرسکون، علم دوست اور خاموش مزاج ماحول میرے لیے کسی خوبصورت رومانٹک فلم سے کم نہ تھا، میں نے مطالعے کیلئے ایک کتاب منتخب کی اور پڑھنے لگی،کتاب پڑھتے پڑھتے معلوم ہی نہ ہواکہ ایک گھنٹہ میں 129 صفحات کیسے ختم ہوئے۔ کتاب سے نگاہ اٹھائی تو ساتھ بیٹھے عمر رسیدہ شخص کو بھی کتاب بینی میں مشغول پایا، وہ صاحب کتاب پڑھنے میں اتنے مگن تھے کہ انہیں احساس ہی نہ ہوا کہ وہ کس انداز میں بیٹھے ہیں۔

کچھ دیر آرام کی غرض سے میں نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی، اس دوران لائبریری کے دیگر حصوں کو دیکھنا کا شوق ہوا، میں محض کچھ دیر کی چہل قدمی کیلئے کوریڈور میں آگے کو چل پڑی، مگر یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ لائیبریری میں موجود فقط چند ہندسوں کی نوجوان نسل مطالعے کے بجائے اپنے فونز یا دوستوں کے ساتھ مختلف کونے پکڑ کر محو گفت گو تھے۔

پوری لائبریری میں چار جوڑے، یعنی کہ آٹھ اسٹودنٹس ملے، لیکن وہ بھی اپنے ایپل، سامسنگ کے گیجٹس ہاتھ میں پکڑے مصروف تھے، نہ تو ان کے پاس کوئی کتاب تھی اور نہ ہی کتاب اٹھانے کی نیت۔

دل میں افسوس بھی ہوا اور روشن خیالی کی نئی تعریف بھی دماغ کے دریچوں سے آوازیں دینے لگی لیکن بہر حال یہ ان کی اپنی زندگی تھی۔ میں دوبارہ اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئی اور پاس بیٹھے ان بزرگ شخصیت کو دیکھنے لگی، میرے دیکھنے پر وہ میری جانب متوجہ ہوئے اور خیریت دریافت کی، انہوں نے بتایا کہ لائبریری میں یونیورسٹی کے طلباء نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور باقی کی باتیں تو نہ ہی کی جائے تو بہتر ہوگا، ان سے گفت گو تو مختصر ہوئی، تاہم وہ بے شمار سوالات چھوڑ گئی۔

لائبریری جو صرف مطالعے کیلے مخصوص ہوتی ہے، وہ ہمارے نوجوان طبقے کیلے ایک تفریح گاہ بن چکی ہے، لائبریری جس میں تحقیق اور ریسیرچ ہوتی ہے، وہ اکثر نوجوانوں کیلے بورنگ جگہ ہے۔ ایک خاموش، پرسکون اور مخفوظ "پریم گلی" ہے، لائبریری جو مطالعے کے ساتھ ساتھ طلباہ میں راہنمائی کی صلاحیتیں پیدا کرتی ہے جس میں تحقیق کیلے مختلف اقسام کے ریفرنسز ملتے ہیں، آج ویران ہے۔ ہمیں بحیثت قوم علمی روایات کو تیکنیکی دور کے مقابلے میں کبھی بھی پیچھے نہیں چھوڑنا چاہئیے، ورنہ داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔ سماء