ووٹ نوازشریف کودوں گااگر
دو ضرب المثل ہیں "کھری کھری سنا دیں" اور "سوال گندم جواب چنا"دونوں کے معنی ایک دوسرے سے بالکل مختلف یا الٹ ہیں۔ سچی اور کھری بات کرنیوالا ہمیشہ کھری کھری سناتا ہے جبکہ دل میں چور ہو یا چور کی داڑھی میں تنکے والا سوال کا جواب بھی آئیں بائیں شائیں کر کے دیتا ہے یعنی سوال گندم جواب چنا آئے گا۔
یہ دو ضرب المثل نواز شریف کے جمعہ کو پارلیمنٹ میں جانے اور پاناما لیکس پراٹھنے والے اعتراضات کا جواب دینے پر یاد آئیں۔ گو کہ وزیراعظم حزب اختلاف کے زور دینے اور قومی اسمبلی کے احتجاج کرنے کے بعد پارلیمنٹ میں جانے پر راضی ہوئے ہیں ۔اب یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ پاناما لیکس کے بعداپنے اوپر لگنے والے الزامات کا جواب کیا دیتے ہیں اور حزب اختلاف ان جوابات سے مطمئن ہوتی ہے یا نہیں مگر یہ بات عیاں اور واضح ہے کہ دھرنے کے وقت تمام جماعتوں نے سوائے تحریک انصاف کے، وزیراعظم کی کھل کرحمایت کی تھی اورپارلیمنٹ کے کردار کو تمام جماعتوں بشمول وزیراعظم نے سراہا تھا۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ تمام مسائل صرف اور صرف پارلیمنٹ کے ذریعے ہی حل کیے جا سکتے ہیں مگر المیہ ہے کہ پاناما لیکس کی باری وزیراعظم نے پارلیمنٹ کی بجائے عوامی جلسوں کافیصلہ کیا۔
پاناما لیکس کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں نےجواعتراضاتاٹھائے ہیں،ان میں سے پہلا سوال یہ ہے کہ وزیراعظم مے فئیر فلیٹس پر وضاحت دیں کہ یہ کب خریدے۔ اس سوال کا جواب وزیراعظم ایک منٹ میں دے سکتے ہیں کہ یہ 90 کی دہائی میں یا 2000 کے بعد خریدے گئے۔ اگر ثبوت کے ساتھ جواب دیں اوراگر سیدھا سادھا جواب دیا تو جواب گندم اور اگر اس سوال کے جواب میں یہ کہا کہ میرے خاندان کے خلاف سازش ہے تو جواب چنا ہو گا۔دوسرا اعتراض یا سوال ہے کہ وہ فلیٹس کیا وزیراعظم کی ملکیت ہیں اگر نہیں تو اخباروں میں خبروں اور چوہدری نثار کی پرانی پریس ٹاک کی وضاحت کریں جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ نواز شریف کی ملکیت ہیں ۔اگر ثبوت اور دلیل کے ساتھ جواب دیکرکھری کھری سنا دیتے ہیں اور اپوزیشن کو لاجواب کر دیتے ہیں تب تو ٹھیک ہے اور اگر اس سوال کے جواب پر کہتے ہیں کہ ہمارے دور میں ترقی ہو رہی ہے اور اس ترقی کے خلاف سازش جاری ہے،تو سوال گندم جواب چنا ہی سمجھا جائے گا۔ سوال ہو تا ہے کہ1985سے2016تک بیرون ملک جائیداد،اکاؤنٹس آف شور کمپنیز سے متعلق بتائیں، اگر وزیراعظم ثبوت کے ساتھ کھری کھری سنا دیتے ہیں تو اپوزیشن بھی لاجواب ہو گی اور اگراس سوال کاجواب آیا کہ ہمارے آباؤ اجداد1937سےاربوں پتی تھےتوسوال گندم جواب چناہی سمجھاجائے گا۔
اپوزیشن کا اعتراض ہے کہ وزیراعظم اپنے اور اہل خانہ کے ٹیکس کی تفصیلات بتائیں۔ یہ ایسا اعتراض ہے جس کا جواب دستاویزات کے ساتھ وزیراعظم اعتراض کرنے والوں کے منہ پر مار کر کھری کھری سنا سکتے ہیں اور اگر جواب یہ دیتے ہیں کہ تمام تفصیلات پہلے سے دی جا چکی ہیں تو وہ تفصیلات خود تضاد ہیں کیونکہ اربوں پتی ہونے کے دعوے ٹیکس کی تفصیلات میں واضح ہیں تو اس جواب کو سوال گندم جواب چنا سمجھنے میں اپوزیشن حق بجانب ہوگی۔ ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ وزیراعظم نے اپنے خاندان کے اثاثے اتنے سال چھپا کر کیوں رکھے اچانک ظاہر کیوں کئے اس کا جواب بھی ثبوت کے ساتھ کھری کھری سنا کر دیتے ہیں تو ٹھیک ورنہ اگر یہ کہتے ہیں کہ باقی جماعتوں کے رہنماؤں کی بھی باہر جائیدادیں ہیں تو یہ سوال گندم اور جواب چنا ہی سمجھا جائے گا۔
اگر مذکورہ تمام اعتراضات کے جوابات وزیراعظم ثبوت اور شفاف طریقے سے دیتے ہیں تو کم از کم میں اپنا ووٹ نواز شریف کو دوں گا۔ میرا یقین اور اعتماد بحال ہو جائے گا کہ وزیراعظم صاف اور شفاف ہیں اور ملک کو آگے لیکر جا سکتے ہیں اور اگر وزیراعظم ان سوالات کا تسلی بخش جواب نہیں دیتے اور اپنے خلاف سازش قرار دیتے ہیں اورموٹروے موٹروے کرنا شروع کر دیتے ہیں تو کیا میرا ووٹ پھر بھی نواز شریف کے لئے ہونا چاہیے؟ آپ پر تو درجن کے قریب اعتراضات اور الزامات ہیں۔ کیا اتنے اعتراضات اور الزامات پر آنکھیں بند کر کے صرف موٹروے کے حصول کے لئے آپ کو ووٹ دے دوں گا، کیا یہاں گونگے بہرے اور اندھے لوگ بستے ہیں جو سوال گندم اور جواب چنا پر مطمئن ہو کر آپ کے حق میں نعرے لگاتے رہیں؟