سندھ میں ناکافی سہولیات کی وجہ سے دورانِ زچگی سالانہ 3000ہزار خواتین کی اموات ہوتی ہیں،ماہرین
ماہرین کا کہنا ہے کہ 2050 تک سندھ کی آبادی95.7ملین تک پہنچ جائے گی۔ بروقت پلاننگ کے ذریعے سالانہ ایک ہزار ماؤں اور34ہزار بچوں کی جان بچائی جاسکتی ہے۔
کراچی میں وزارت ترقی و منصوبہ بندی اور اقوام امتحدہ پاپولیشن فنڈ کے اشتراک سے منعقدہ رضاکارانہ قومی سروے اور آبادی اور ترقی پر بین الاقوامی کانفرنس کے بارے میں مشاورتی ورکشاپ میں ماہرین کا کہنا تھا کہ تولیدی صحت اور خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک رسائی میں اضافہ، آبادی کی ترقی کیلئے خواتین کو بااختیار کرنا ضروری ہے۔
ماہرین کے مطابق سندھ کی موجودہ 56.3ملین آبادی 2.41فیصداوسط سالانہ شرح نمو کیساتھ 2050تک95.7ملین ہوجائے گی۔سندھ میں صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے دورانِ زچگی 3000ہزار خواتین کی سالانہ اموات ہوتی ہیں۔
سندھ میں زچگی کی شرح 3.6فیصد ہے اور سندھ میں ایک ہزار بچوں میں سے 60بچے ایک سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی موت کا شکار ہوجاتے ہیں جبکہ 5سال کی عمر سے کم 50فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سندھ میں 5سے 16سال کی 51فیصد لڑکیاں اور 39فیصد لڑکے تعلیم سے محروم ہیں۔شرکاء نے کہاکہ فیملی پلاننگ، تعلیم اور خواتین کو بااختیار کیے بغیر بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنا مشکل ہوں گی۔
ورکشاپ میں شرکاء نے کہاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث پاکستان کی عوام کو صحت، تعلیم، خوراک سمیت بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے اور ہمیں آبادی اور وسائل میں توازن پیدا کرنا ہوگا۔
کانفرنس میں صوبہ سندھ میں تولیدی صحت کو آگے بڑھانے، صنفی مساوات کو فروغ دینے اور خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے کیلئے پیش رفت پر روشنی ڈالی گئی۔ اس موقع پر پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں جنسیت کی جامع تعلیم، معیاری صحت کی دیکھ بھال کی خدمات تک رسائی اور صنفی بنیادپر تشدد کے خاتمے کے اہم کردار کو بھی سراہاگیا۔
اس موقع پر یو این ایف پی اے سندھ آفس کی سربراہ بیرام گُل نے کہاکہ اس طرح کی مشاورت انسانی حقوق، آبادی،جنسی اور تولیدی صحت، صنفی مساوات اور پائیدار ترقی کے بارے میں متنوع نظریات کی سہولیات فراہم کررہی ہیں۔
آئی سی پی ڈی پروگریسو ریویوکنسلٹیشن نے سرکاری افسران، سول سوسائٹی کی تنظیمیں، اکیڈمی اور ڈیولپمنٹ شراکت داروں سمیت مختلف شعبوں کے اہم اسٹیک ہولڈرز کو جمع کیا۔ شرکاء نے صوبہ سندھ میں آئی سی پی ڈی پروگرام آف ایکشن کے نفاذ سے متعلق کامیابیوں، چیلنجزاور مواقعوں کا جائزہ لیا۔
ورکشاپ میں سندھ حکومت نے پائیدار ترقی اور آبادی کے انتظام کیلئے ایک اہم فریم ورک کے طورپر تسلیم کرتے ہوئے آئی سی پی ڈی پروگرام آف ایکشن کو ترجیح دینے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ سندھ حکومت اس پروگرام کے موئثر نفاذ کو یقینی بنانے کیلئے تکینکی سپورٹ، ایکسپرٹیز، اوروسائل کی فراہمی کے ذریعے یو این ایف پی کے ساتھ تعاون کررہی ہے۔
پاکستان کے موجودہ ملکی اخراجات خاندانی منصوبہ بندی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ناکافی ہیں۔ خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں کو کامیاب اور پائیدار بنانے کیلئے ان پر عمل درآمد کیلئے مضبوط قومی صلاحیت کے ساتھ فیملی پلاننگ کموڈیٹیز، خدمات کی فراہمی، مالی وسائل کو متحرک اور خرچ کرنے کی صلاحیت اور ٹریننگ سمیت عوامی فنڈز کی مختص رقم میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔
آئی سی پی ڈی پروگریس رویو کنسلٹیشن کے نتائج سندھ میں آئی سی پی ڈی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے شواہد پر مبنی پالیسیوں، حکمتِ عملی اور ایکشن پلان کی تکمیل میں معاون ثابت ہوں گے۔ حکومتِ سندھ یو این ایف پی اے کی کوآرڈی نیشن کے ساتھ سندھ کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرے گی تاکہ ترقی کی رفتار کو تیز، موجودہ خلا کو دور اور سندھ کے لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لائی جاسکے۔
ورکشاپ میں حصہ لینے والے اسٹیک ہولڈرز نے کہا کہبڑھتی ہوئی آبادی کے باعث پاکستان کی عوام کو صحت، تعلیم، خوراک سمیت بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے اور ہمیں آبادی اور وسائل میں توازن پیدا کرنا ہوگا۔ مشاورتی ورکشاپ کے شرکاء نے خواتین اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے،تولیدی صحت اور حقوق، آبادی اور پائیدار ترقی، تعلیم، فوڈ سیکیوریٹی،موسمیاتی تبدیلی، شہری آبادکاری اور نقلِ مکانی پر پیش رفت کو تیزکرنے کیلئے مسائل، چیلنجزاور آگے بڑھنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرنے کیلئے مختلف سیشنز کا انعقاد کیا۔