کاش پارلیمنٹ میں پاکستان کی بات ہوتی …!

پاکستان کا کشمیرسے متعلق ٹھوس اور واضح مؤقف ہے، بھارت کو کشمیر سے متعلق 4 اگست 2019 کی صورتحال پر واپس آنا ہوگا

ایک ایسے وقت میں جب بھارت میں پاکستان کے وزیر خارجہ پاکستان کا مقدمہ بہت ہی اچھے انداز میں لڑ رہے تھے اور انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور پاکستان پر عائد کیے جانے والے بے بنیاد الزامات کا دلائل کے ساتھ جواب دیا اور حقائق دنیا کے سامنا رکھے، انہوں نے دنیا کو ایک مرتبہ پھر تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کامیاب کوشش بھی کی۔

ایسے وقت میں جب ہمارے وزیر خارجہ بھارت میں موجود تھے کیا یہ اچھا نہیں تھا کہ ہماری پارلیمنٹ بھی اس موقع پر دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے پاکستان کی کوششوں اور بھارت کے بے بنیاد پراپیگنڈا کو دنیا کے سامنے رکھنے، کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی، بھارت کی پاکستان میں امن کو تباہ کرنے کے لیے دہشتگردی کی منظم کارروائیوں اور کشمیر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بات ہوتی تو دنیا کو ہماری پارلیمنٹ سے مختلف پیغام جاتا۔ جب ہمارے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھارت میں پاکستان کے دشمنوں کے جھوٹے بیانیے کا جواب دے رہے تھے ہم یہاں آپس میں الجھ رہے تھے۔ کاپیاں پھاڑ رہے تھے، ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے تھے، اس سے دنیا کو کیا پیغام جاتا ہو گا۔ جب ایک طرف ہم آئی ایم ایف سے معاہدے کے لیے مہینوں سے مذاکرات کر رہے ہیں، دوست ممالک کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں ایک طرح سے ہماری ضمانت کی ضرورت بھی پیش آ رہی ہے، طویل جدوجہد کے بعد ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکلے ہیں، سیلاب نے تباہی مچائی ہوئی ہے، گذشتہ برس کے سیلاب سے ہونے والی تباہی سے باہر نہیں نکلے کہ ایک مرتبہ پھر بارشوں اور سیلابی ریلوں نے نیندیں اڑا رکھی ہیں۔

ان حالات میں ہمارے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھارت میں بیٹھ کر ناصرف پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بڑی وضاحت اور سمجھداری کے ساتھ بیان کر رہے ہیں، وہیں بھارت کی ہٹ دھرمی ، پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں اور کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو دلیری کے ساتھ بے نقاب کیا ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری نے اب تک وزیر خارجہ کی حیثیت سے بہت اچھا کام کیا ہے انہیں بھلے ناپسند کیا جائے لیکن بین الاقوامی سطح پر وہ جس اعتماد، یقین اور مہارت کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں اس سے ان کی سیاسی تربیت نظر آتی ہے۔ چونکہ وہ محترمہ بینظیر بھٹو کے بیٹے ہیں، ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی اپنی ایک تاریخ ہے بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے بھی بہت مختلف سیاست کی ہے بالخصوص مفاہمت اور بات چیت کے لیے ماحول بنانا اور اپنے موقف کو منوانا وہ بہت اچھے طریقے سے تمام چیزوں کو آگے بڑھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ اس پس منظر میں بلاول بھٹو زرداری کا دورہ بھارت اس لحاظ سے کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے ایک مرتبہ پھر کشمیریوں کے دل جیتے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ کشمیر پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں بھارت کو بات چیت کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنا ہو گا۔ پاکستان کا کشمیرسے متعلق ٹھوس اور واضح مؤقف ہے، بھارت کو کشمیر سے متعلق 4 اگست 2019 کی صورتحال پر واپس آنا ہوگا، اجلاس کے موقع پرمختلف وزرائے خارجہ سے ملاقات ہوئی ہے ایک کے سوا تمام وزرائے خارجہ سے الگ الگ ملاقاتیں ہوئیں۔پانچ اگست 2019 کوبھارت نے غیرقانونی اقدامات کیے، 2019 کے اقدامات سے بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی، بھارت کے پانچ اگست 2019 کے اقدام نے دونوں ممالک کے حالات کو تبدیل کر دیا۔کشمیری رہنما عبدالحمید لون نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے گوا میں بیان کا خیرمقدم کیا ہے۔عبدالحمید لون کا کہنا ہے کہ پاکستان کے واضح مو¿قف سے کشمیر کے متعلق منفی پروپیگنڈے نے دم توڑ دیا ہے۔ اس دو ٹوک موقف سے مقبوضہ کشمیر کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ہم وزیر خارجہ کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں، دنیا کے ساتھ بھارت کو باور کرایا کہ کشمیر پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا ۔ بلاول بھٹو کا یو این قراردادوں پر عملدرآمد پر زور دینا حوصلہ افزا ہے، عبدالحمید لون نے پانچ اگست کے بھارتی اقدامات کو اقوام متحدہ قراردادوں کے منافی قرار دیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ڈپلومیٹک پوائنٹ سکورنگ کیلئے دہشتگردی کو بطور ہتھیار استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

یہ تصویر کا ایک رخ ہے جہاں بلاول بھٹو اپنے ملک کے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں اپنے ملک کے لیے جو کر سکتے تھے انہوں نے کیا دوسری طرف ملک میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر وہی طوفان بدتمیزی ہے۔ کاش کہ اس موقع پر سیاسی قیادت اتحاد کا مظاہرہ کرتی اور مسئلہ کشمیر کے حوالے مفصل گفتگو ہوتی، دنیا کو بتایا جاتا کہ پاکستان اندرونی طور پر اور سفارتی سطح پر بھی کشمیریوں کے ساتھ ہے اور کسی بھی موقع پر کشمیری بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑتا ۔ دنیا کو ایک پیغام جاتا کہ دہائیاں گذرنے کے باوجود آج بھی پاکستان کی مسئلہ کشمیر کی پالیسی میں کوئی فرق نہیں آیا۔

اس حوالے سے پایا جانے والا ابہام بھی ختم ہوتا اور کشمیریوں کو بھی پیغام جاتا کہ پاکستان پانچ اگست دو ہزار انیس کو ہونے والے بھارتی اقدامات کی ہر سطح پر شدت کے ساتھ مخالفت کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح دہشتگردی کے معاملے پر بھی پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں لیکن بھارت بے بنیاد الزامات لگا کر دنیا کے سامنے پاکستان کو ہی ملزم بنانے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ ان کے اپنے لوگ یہاں دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ کلبھوشن یادیو کی شکل میں ایک زندہ کردار دنیا کے سامنے ہے پھر ابھی نندن کا گرا ہوا طیارہ بھی دنیا کے سامنے ہے۔ کون سرحدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے اور کون دہشتگردی کے پیچھے ہے۔ اس حوالے سے کچھ ڈھکا چھپا نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اپنی قربانیوں کو بھی اپنے سیاسی فائدے کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔ کم از کم ایسے مواقع پر تو نامناسب طرزِ عمل سے بچنے کی کوشش ہو سکتی ہے لیکن شاید کسی کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ کاش کہ قومی سوچ اپنائی جائے۔

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div