آج کے عقل کُل ۔۔۔ افسوس
چلیں میں آپ کی بات تسلیم کرلیتا ہوں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے یہ بھی تسلیم کرلیتا ہوں کہ سیاست بھی اہم ترین مسئلہ ہے۔ لیکن اگر میں کہوں کہ پاکستان کا سب سے بڑا اور بھیانک مسئلہ اخلاقیات ہے تو آپ کیا اس سے انکار کرسکتے ہیں۔
کیا آپ اس بات کو رد کرسکتے ہیں کہ جن قوموں کی اخلاقیات ختم ہوجاتی ہے، وہاں معیشت بچتی ہے نہ سیاست اور نہ ریاست۔ کیا ہم بطور قوم ہم اخلاقی گراوٹ کی آخری سطح پر نہیں کھڑے۔ قوموں کیلئے ان کے اہل دانش، قلمکار مشعل راہ ہوتے ہیں۔ وہ کسی تعصب، کسی سیاسی پسند ناپسند سے بالاتر ہوکر قوم کو راستہ دکھاتے ہیں، سمجھ لیں کہ کسی بھی قوم کے دانشور دراصل اس وقم کا انٹینا ہوتے ہیں جن کے رخ اور افکار سے اس قوم کے سیاسی، سماجی، اخلاقی رجحان کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ارسطو سے لے کر کنفیوشس تک سب نے اپنی اپنی قوموں کو ان کے زوال کے وقت راہنمائی کرکے عروج پر پہنچایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کا پاکستان وہ پاکستان نہیں ہے جس کی بنیاد قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے رکھی، جس کا خواب حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے دیکھا۔ جس کیلئے لاکھوں لوگوں نے جان و مال کی قربانیاں دیں۔ آج کا پاکستان جہاں سیاسی طور پر تباہ حال ہے وہاں ہماری اخلاقیات کا بھی جنازہ نکل چکا ہے۔
بات کہیں کی کہیں چلی گئی، آج جب میں ارض وطن پر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے تلاش بسیار کے باوجود ایک بھی ایسا دانشور نظر نہیں آتا جو عصر حاضر کے جدید تقاضوں پر راہنمائی کے معیار پر پورا اترتا ہو، مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ جیس الرجال میں جو چند چہرے نظر آتے ہیں وہ دانشور کم مختلف سیاسی گروہوں، اداروں کے ترجمان زیادہ ہیں۔ پنجاب میں کہتے ہیں کہ ”جنوں بھنوں اوہی لال“۔ آپ ٹی وی کی آواز بند کردیں اور صرف چہرہ دیکھ کر بتاسکتے ہیں کہ یہ صاحب کیا ارشاد فرما رہے ہیں۔ کبھی ایک کمپنی کا ٹریڈ مارک تھا His Master Voice ، آج یہ ٹریڈ مارک ہر دانشور کے چہرے پر اچھلتا کودتا نظر آئے گا۔ پاکستان کی معاشی اقتصادی اور سماجی تباہی میں جہاں کم قدر والے بونے سیاستدانوں اور اونچی مچانوں پر بیٹھے شکاریوں کا گھناؤنا کردار رہے ہیں، ان نام نہاد دانشوروں نے بھی دانش کے نام پر جو ”انی پائی“ ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
آپ میری بات کا ذرا عملی طور پر جائزہ لیں پاکستان کے بیشتر دانشوروں، اہل قلم اور تجزیہ نگاروں کا جائزہ لیں اور دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا ان میں آپ کسی ایک کو بھی غیر جانبدار اور مادی حرص و لالچ سے مبرا پاتے ہیں، ان کے قلم چاہے طاقتور کے قدموں میں لوٹنیاں کھائیں لیکن ان کی زبانیں مادی خواہشات کی وجہ سے ان کے حلقوں سے باہر نکلتی ملیں گے۔
بس یہ سمجھ لیں کہ ان کے قلم اور افکار نے ہمیشہ اپنی بوٹی کیلئے قوم کا بکرا ذبح کردیا اور پھر اس بکرے کی کھال پر جعلی ماتم بھی خود کئے۔ آج 24 کروڑ پاکستانیوں کی زندگی ایک امتحان بن چکی ہے، بنیادی اشیائے ضروریہ ان کیلئے خواب بن چکی۔ آج غریب کو خوابوں میں روٹیوں کے چیتھڑے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف انٹرنیشنل فرنچائز پر آپ کو بیٹھنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ مزے کی بات ہے کہ ان ہوٹلز کی کافی شاپس پر ملک کے امراء کے ساتھ آپ کو ادبی قبضہ گروپ ہی قہقہے لگاتے ملے گا۔ اب آج کے معاشرے میں عدم برداشت اور گالی کے کلچر کا ذمہ دار سیاسی قیادت کو ٹھہرائیں تو میں آپ کی بات سے متفق ہوں لیکن مجھے اس سوال کا جواب دیں کہ اس معاشرتی بگاڑ کو سدھارنے میں آج کے دانشور نے اپنا کی کردار ادا کیا۔ امراء، شرفاء اور طاقتوروں کو اپنی چرب زبانی اور لطیفوں سے خوش کرکے مراعات لینے والے ادیبوں نے ان سیاسی کرداروں کی بد زبانی میں حوصلہ افزائی کی۔
ہر سیاسی کردار کو مولا جٹ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا لیکن چاہ کے بھی میرا قلم ”واہ جواناں سواد آگیا“ نہیں کہہ پارہا۔ تاریخ جب پاکستان پر بات کرے گی تو ضرور لکھے گی کہ جب پاکستان میں راہبری کے روپ میں راہزن کھلے عام لوٹ مار کر رہے تھے اور پوری قوم الاماں الاماں پکار رہی تھی تو اس وقت کا نام نہاد دانشور مخالفوں کو ”تینوں لوے مولا“ کہہ رہا تھا، افسوس ہم کسی بات میں بھی خالص نہیں رہے۔