چیف جسٹس کے’ون مین پاور شو’ کے اختیار پر نظرثانی کرنا ہوگی، جسٹس منصور، جسٹس جمال مندوخیل

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا پنجاب میں عام انتخابات کی تاریخ دینے کے کیس میں اختلافی نوٹ جاری
<p>File photo</p>

File photo

پنجاب میں عام انتخابات کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کی طرف سے لیے گئے از خود نوٹس کیس سے اختلاف کرنے والے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے جاری کردہ تفصیلی فیصلے کے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ عدالت سیاسی ادارہ بنے تو عوام کی نظرمیں اس کی ساکھ ختم ہوجاتی ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا پنجاب میں عام انتخابات کی تاریخ دینے کے کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کی طرف سے جاری اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ عدالتی دائرہ اختیار کیس کی نوعیت طے کرتی ہے نہ کہ اس سے جڑے مفادات طے کرتے ہیں۔ ججز کی خواہش غالب آئے تو سپریم کورٹ سامراجی عدالت بن جاتی ہے۔

اختلافی نوٹ کے مطابق عدالت سیاسی ادارہ بنے تو عوام کی نظرمیں اس کی ساکھ ختم ہوجاتی ہے۔یقینی بنانا ہو گا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے پارلیمنٹ کا اختیار محدود نہ ہو، ہائیکورٹس میں کیس زیرالتواء ہونے کے باوجود سوموٹو لیا گیا، آرٹیکل 184 تین کا دائرہ اختیار غیر معمولی، صوابدیدی اور بہت خاص نوعیت کاہے، آرٹیکل 184 تین کا دائرہ اختیار بنیادی حقوق کے مقدمات میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

دونوں ججز کے اختلاف نوٹ میں مزید کہا گیا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہرمن اللہ کے فیصلوں سےاتفاق کرتےہیں، آئینی درخواستیں مسترد اور سوموٹو کارروائی ختم کی جاتی ہے۔ ججز کو ان کی مرضی کے برعکس بینچ سے نکالنے کی قانون میں اجازت نہیں۔ دو ججز نے اپنا فیصلہ دیتے ہوئے بنچ میں رہنے یا نہ رہنے کا معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال پر چھوڑا تھا۔ دونوں ججز کا فیصلہ معاملے کے حتمی فیصلے میں شامل ہے۔

دونوں ججز کی طرف سے مزید لکھا گیا کہ پنجاب میں الیکشن کے حوالے سے عدالتی فیصلے تین کے مقابلے میں چار ججز کا ہے اور سوموٹو مقدمے کو خارج کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے سات رکنی لارجر بینچ کے چار ججز نے کیس کو خارج کیا۔ چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

اختلافی نوٹ میں مزید کہا کہ رولز بنا کر چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنا ہو گا، اختیارات ریگولیٹ کرنے سے شفافیت آتی ہے، وکلاء محاذ کیس میں سپریم کورٹ کہہ چکی غیر معمولی اختیار استعمال کرنے کیلئے پالیسی بنانا ہو گی۔ چیف جسٹس کو بینچز تشکیل دینے کے وسیع اختیارات حاصل ہیں، عدالت دوسرےاداروں کو صوابدیدی اختیارات ریگولیٹ کرنے کا کہتی رہی ہے، بدقسمتی سے سپریم کورٹ خود صوابدیدی اختیارات ریگولیٹ نہیں کرسکی۔

اختلافی نوٹ کے مطابق چیف جسٹس کے سوموٹو، بینچز تشکیل کے اختیارات سےعدالت کی تکریم میں کمی ہوئی۔ چیف جسٹس کے وسیع اختیارات کی وجہ سےعدالت کو تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ جسٹس یحییٰ ، جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلوں سے اتفاق کے بعد یہ فیصلہ اختلافی نہیں رہا، یقین ہے کہ ازخود نوٹس ختم کرنے کا فیصلہ4،3 کی اکثریت سےعدالتی حکم بن گیاہے۔ 4،3 کا فیصلہ ماننا تمام اداروں پر لازم ہے۔ سماعت شروع ہو جائے تو بنچز کی تشکیل اورتبدیلی میں چیف جسٹس کاانتظامی اختیارنہیں رہتا، بنچ کی تبدیلی جج کی معذرت یا رولز کے خلاف تشکیل ہونے پر ہوتی ہے، دونوں صورتوں میں بنچ معاملہ چیف جسٹس کے سامنے رکھنے کا حکم دیتاہے، کازلسٹ جاری ہوجائے تو چیف جسٹس بینچ تبدیل نہیں کرسکتے، بینچ میں اختلافی آواز دبانے کی کوشش سے غیر جانبدار عدالتی نظام کی بنیادیں ہل جائیں گی۔

اختلافی نوٹ کے مطابق ابتداء میں حتمی فیصلے کا مطلب جج کا بینچ سےالگ ہونا یا سماعت سے معذرت نہیں ہوتا، دو ججز کو بنچ سے الگ کرنے کے چیف جسٹس کے فیصلے کا اُن کےعدالتی حکم پر اثر نہیں پڑےگا، بنچ کی از سر نو تشکیل انتظامی فیصلہ تھا تاکہ باقی 5 ججزمقدمہ سن سکیں، بنچ کی ازسرنوتشکیل دونوں ججز کےعدالتی فیصلے کو ختم نہیں کرسکتی، بنچ سےالگ ہونے والے ججز کا انتظامی فیصلہ کیس ریکارڈ کا حصہ ہے، دونوں ججز کے فیصلے الگ کرنا انہیں بنچ سے نکالنے کے مترادف ہو گا، دونوں ججز کے فیصلے کو حتمی فیصلے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی خود بنچ سے الگ ہوئے تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کو بنچ سے نکالا نہیں گیا تھا، ججز کو بنچ سے نکالنے کا اختیار چیف جسٹس کو ہے نہ قانون میں اجازت ہے۔

اختلافی نوٹ میں پانامہ کیس کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیاہے، پانامہ کیس میں ابتدائی فیصلہ 2-3 کے تناسب سے آیا تھا۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے از خود نوٹس لیا تھا اور ابتدائی طور پر اس پر 9 رکنی لارجر بینچ بنایا گیا تھا۔

لارجر بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔

تاہم سماعت کے دوران جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے تھے کہ میرے ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں۔کچھ آڈیو سامنے آئی ہیں، آڈیو میں عابد زبیری کچھ ججز کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، ان حالات میں میری رائے میں یہ کیس 184/3 کا نہیں بنتا۔

بعد ازاں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے علاوہ جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی کیس سننے سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد پانچ رکنی بینچ نے چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں کیس کی سماعت کی تھی۔ اس کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ 90 روز میں الیکشن کرائے جائیں۔ پانچ رکنی بینچ نے 2-3 کی اکثریت سے یہ فیصلہ سنایا تھا۔

اب الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر 2023 کی نئی تاریخ کا اعلان کردیا ہے جس کے بعد تحریک انصاف معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ لے گئی ہے جہاں اس کی سماعت جاری ہے۔

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div