بروقت الیکشن نہ کرانابادی النظرمیں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے پنجاب اور کے پی میں عام انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کی درخواست پر وفاق، الیکشن کمیشن اور گورنرخیبرپختونخوا کونوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت کل صبح 11 بجے تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ نے آج کی سماعت کے حکمنامے میں کہاہے کہ بروقت الیکشن نہ کرانابادی النظرمیں عوام کےبنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی،الیکشن میں تاخیرشہریوں کےبنیادی آئینی حقوق متاثرکرنےکےمترادف ہے۔
جاری حکم نامے کے مطابق بروقت صاف،شفاف انتخابات یقینی بناناجمہوری حکومت کیلئےانتہائی اہم ہے،آئین کےتحت شفاف،منصفانہ انتخابات جمہوری نظام کیلئےنہایت ضروری ہیں۔
پی ٹی آئی نےالیکشن کمیشن کاانتخابات ملتوی کرنےکاحکم چیلنج کیا،پی ٹی آئی کےمطابق الیکشن کمیشن کےپاس انتخابات ملتوی کرنےکااختیارنہیں،الیکشن کمیشن اہم قانونی اورحقائق پرمبنی سوالات کےجواب لےکرآئے۔
قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت عظمیٰ نے درخواست آج ہی سماعت کیلئے مقرر کی۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال مندوخیل پر مشتمل بینچ پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کررہا ہے۔
مزید جانیے: پختونخوا میں بھی انتخابات 8 اکتوبر کو کرائے جائیں، گورنرکاچیف الیکشن کمشنر کوخط
سماعت کے دوران پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کر دیا جبکہ الیکشن کمیشن اور گورنرخیبرپختونخوا کو بھی نوٹس جاری کئے گئے ہیں، عدالت عظمیٰ نے تمام فریقین سے کل تک جواب مانگ لیا۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ آئین اور قانون عوام کے تحفظ کیلئے بنائے گئے ہیں، آئین اور قانون کی تشریح حقیقت پر مبنی کرنی ہے، خلاء میں نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا وہ پولنگ کی تاریخ مقرر نہیں کرسکتا، اب الیکشن کمیشن نے پولنگ کی نئی تاریخ بھی دے دی، کیا الیکشن کمیشن کے مؤقف میں تضاد نہیں؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن چاہتے ہیں تو فریقین کو پرامن رہنا ہوگا۔ عدالت عظمیٰ نے شفاف انتخابات کیلئے پی ٹی آئی اور حکومت سے پُرامن رہنے کی یقین دہانی مانگ لی۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نگراں حکومت کا دورانیہ 90 دن سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں نگراں حکومت کی مدت کا تعین کہیں نہیں کیا گیا۔ جس پر علی ظفر نے دلیل دی کہ نگراں حکومت کا مقصد الیکشن ہوتا ہے جو 90 روز میں ہونا ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ الیکشن 90 دن سے 5 ماہ آگے کردیئے جائیں۔
مزید جانیے : عمران خان کی 7مقدمات میں عبوری ضمانت منظور
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 254 کا سہارا لیا ہے، کیا ایسے معاملے میں آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جاسکتا ہے؟۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 254 کا سہارا کام کرنے کے بعد لیا جاسکتا ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کام کرنے سے پہلے ہی سہارا لے لیا جائے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 254 آئین میں دی گئی مدت کو تبدیل نہیں کرسکتا، آرٹیکل 254 آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر تمام 5 ججز کے دستخط ہیں، فیصلوں میں اختلافی نوٹ شامل ہونا معمول کی بات ہے، سپریم کورٹ کے حکم کے راستے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ رکاوٹ بنا، سپریم کورٹ ہی بہتر فیصلہ کرسکتی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ انتخابات پرامن، شفاف اور منصفانہ ہونے چاہئیں، الیکشن ہمارے گورننس سسٹم کو چلانے کیلئے بہت اہم ہے، الیکشن کا عمل شفاف اور پُرامن ہونا چاہئے، آرٹیکل 218 انتخابات کے شفاف ہونے کی بات کرتا ہے، ہمارے لیڈرز نے اب تک اس کیلئے کیا کیا ہے؟۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کیس کو 2 سے 3 دن بعد مقرر کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی تک سماعت ملتوی کی جائے۔ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نامزد اٹارنی جنرل مجھ سے آج ملاقات کرکے گئے ہیں، کل تک نئے اٹارنی جنرل بھی آجائیں گے۔
الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کی ایڈوائس پر پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیلئے 30 اپریل کی تاریخ مقرر کی تھی تاہم سیکیورٹی اور معاشی مشکلات کے پیش نظر پہلے دی گئی تاریخ منسوخ کرتے ہوئے 8 اکتوبر کو الیکشن کرانے کا اعلان کردیا۔