کسی تیسری آپشن کیلئے حالات ساز گار نہ کریں، بیٹھ کر بات کریں، اعظم تارڑ کی عمران کو پیشکش
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پی ٹی آئی کو پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی تیسری آپشن کے لیے حالات ساز گار نہ کریں، ملک کے لیے بیٹھ کر بات کریں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران وفاقی وزیر قانون و انصاف نے کہا ہے کہ آج ہم جہا ں کھڑے ہیں اس میں پاکستان ایک سنگین سیاسی اور معاشی بحران کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے ، آج جیو پولیٹکل حوالے سے ہماری جغرافیائی صورتحال کی وجہ سے معاشی بحران سے نمٹنے میں خاطر خواہ مدد نہیں مل رہی ، ہمارے وزیر خزانہ معاشی صورتحال میں بہتری کے لئے دن رات کام کررہے ہیں، ہمیں بحیثیت قوم کفایت شعاری کی طرف چلنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس کلچر کو بہتر بنانا ، ایکسپورٹ میں اضافہ کرنا ترجیح ہونی چاہیے ۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں سیا سی بحران کی سی کیفیت ہے ، ایک شخص کی انا کی بھینٹ دو اسمبلیاں چڑھ گئیں ہیں ، وہاں پر اسمبلیاں تحلیل ہونے کی بعد کی صورتحال، دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کو مد نظر رکھتے ہوئے دو صوبوں میں الیکشن کی بات آئی تو ایک طرف کی سوچ تھی کہ اگر ایک شخص کی خاطر دو صوبوں میں الگ سے الیکشن کرایا جائے گا تو وہ ہمیشہ متنازعہ رہے گا ، جنرل ضیا الحق کے بدترین مارشل لا بھی انتخابات کی وجہ سے آیا تھا ۔ سیاسی جماعتوں نے ملکر ایک طریقہ کار طے گیا ، 18 ویں ترمیم کے بعد آئین پاکستان میں نگران حکومتوں کا طریقہ کار سمو دیا گیا ہے ، پور ے ملک میں انتخابات ایک ہی دن کو ہونا ہیں ۔ اسی آئین کے تحت پنجاب میں اتفاق رائے نہ ہونے پر الیکشن کمیشن جبکہ کے پی کے میں اتفاق رائے سے نگران حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے ، 272 کے ہائوس میں پنجاب کی نشتیں 141 اور کے پی کے کو شامل کرلیں تو ایک بڑا حصہ بن جاتا ہے ، آج کل ملک میں سول سوسائٹی کی ایک مہم چل رہی ہے کہ ملک میں ایک ہی وقت میں الیکشن ہونے چاہیں ۔
وزیر قانون نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بہترین ہے کیونکہ ملک کے معروضی حالات اسی فیصلے کے متقاضی ہیں ۔ ایک طرف ملک میں سکیورٹی چیلنجز ، شدید معاشی بحران ہے ، حکومتی اور عسکری اداورں نے الیکشن کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو واضح بتادیا ہے کہ دو الگ الگ انتخابات پر الگ سے اخراجات آئیں گے ۔ آئین کا آرٹیکل 254 میں لکھا گیا ہے اگر کوئی کام مقررہ مدت میں مکمل نہیں کیا جاتا تو وہ غیر آئینی نہیں ہوگا ، 2007 میں کے پی کے کی تحلیل اکتوبر میں ہوئی ، باقی اسمبلیوں کی مدت 16 نومبر کو مکمل ہوئی ،الیکشن کمیشن نے تب بھی چاروں صوبوں اور مرکز میں ایک ہی دن الیکشن کرائے تھے ، بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے الیکشن فروری کے آخر میں چلے گئے ، اسی 254 آرٹیکل کے تحت یہ کیا گیا ہے ۔
یہ بھی پڑھیں، پنجاب میں الیکشن ملتوی، پی ٹی آئی کا فیصلہ چیلنج کرنے کا اعلان
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں مرکز اور صوبوں کے الیکشن ایک ہی دن ہوتے رہے ہیں ، 1997 سے لیکر آج تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ایک ہی روز ہوتے آئے ہیں۔ آرٹیکل 218 کی سیکشن3 کے تحت الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ الیکشن شفاف ، غیرجانبدرانہ ہوں ۔ ایک دفعہ ہی الیکشن ہونے سے تمام سیاسی جماعتوں کو مساوی ماحول فراہم کیا جاتا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں دہشت گردی کا حوالہ بھی دیا ہے ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے دو صوبوں میں الیکشن کے التو ا پر تنقید کی بجائے آئیں بیٹھ کر اس کا حل نکالیں ۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہی آئین تھا جب تحریک عدم اعتماد آئی تو اس وقت کی حکومت نے تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی طور پر روکتے ہوئے اسمبلی کو تحلیل کر دیا ، اس وقت آئین یاد نہیں تھا ۔ صدر مملکت کی جانب سے الیکشن شیڈول دیئے جانے کے بعد جب الیکشن کمیشن نے زمینی حقائق کا جائزہ لیا تو اس کے بعد ملک کی معاشی، سکیورٹی اور سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے 8 اکتوبر کا شیڈول دیا اس وقت تک قومی اسمبلی بھی تحلیل ہو چکی ہوگی اور وہاں بھی نگران حکومت ہوگی۔
وزیر قانون نے کہا کہ ماضی میں فاٹا، بلوچستان، سندھ سمیت مختلف حصوں سے خانہ شماری کے حوالے سے شکایات موصول ہوئیں جس پر فیصلہ ہوا کہ آئندہ انتخابات ڈیجیٹل مردم شماری پر انتخابات ہونگے ،مردم شماری کے نتائج چار ہفتوں میں آجائیں گے ،یہ کیسے ممکن ہے یہ دو صوبوں میں پرانی مردم شماری اور باقی ملک میں نئی مردم شماری کے تحت الیکشن ہوں ۔ الیکشن کمیشن خودمختار ،بااختیار ادارہ ہے ، الیکشن کمیشن ہر طریقہ استعمال کرسکتا ہے جس سے الیکشن صاف اور شفاف ہوں ۔ وزیر قانون نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ الیکشن کا انعقاد آئینی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ، الیکشن کمیشن بااختیار ہے کہ الیکشن شیڈول اور تاریخوں میں تبدیلی کرے۔
یہ بھی پڑھیں، الیکشن کمیشن نے پنجاب میں عام انتخابات کو ملتوی کر دیا
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 252،الیکشن ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن کے پاس اختیارات موجود ہیں، پہلے بھی جو شیڈول تھا وہ 90 دن کی مدت کے اندر نہیں تھا، اگر کسی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام آئے گا تو اس میں پاکستان سب سے زیادہ اہم ہے ۔ سیاست کی بنیاد ہی گفت و شنید پر ہے ، بدقسمتی سے عمران خان اپنی انا ، سوچ اور نظریہ رکھتے ہیں، پونے چار سال تک عمران خان نے اپوزیشن سے مصافحہ تک نہیں کیا، آئین کہتا ہے کہ اپوزیشن سے بات کریں تو بات نہیں کی ، ملک ایسے چلتے ہیں ؟ آج اگر عمران خان کو سمجھ آگئی ہے تو اچھی بات ہے۔ ریاست سب سے پہلے ہے، پاکستان کے لئے اکٹھے بیٹھیں ، سیاسی عہدے لینے سے کسی نے بڑا سکور نہیں کر لینا۔ ان حالات میں الیکشن کرائے گئے تو یہ خونی الیکشن ہونگے، جمہوری نظام کو چلنے دیں ، تیسرے آپشن کے لئے حالات ساز گار نہ کریں ۔ جب ہم اپوزیشن میں تھے تو ہم نے بات چیت کی بات کی، وزیراعظم شہباز شریف نے تحریک عدم اعتماد کے بعد ایوان میں پہلی تقریر میں مل بیٹھ کر آگے چلنے کی بات کی ،زیرک سیاستدان ہمیشہ اپنے دروازے اور راستے کھلے رکھتے ہیں ۔