فواد چوہدری کی اپنے بھائی فیصل چوہدری سے گفتگو کی مبینہ آڈیو لیک
سابق وفاقی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے سیکریٹری اطلاعات فواد چوہدری کی اپنے بھائی فیصل چوہدری ایڈووکیٹ سے گفتگو کی مبینہ آڈیو لیک ہوگئی ہے۔
آج بروز جمعہ 3 مارچ کو منظر عام پر آنے والی مبینہ آڈیو لیک میں فواد چوہدری اپنے بھائی فیصل چوہدری سے بات کر رہے ہیں، جس میں ججز اور وکیل سے متعلق بات چیت کی گئی۔
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس: آڈیو لیکس معاملے کی تحقیقات کیلئے کمیٹی کی تشکیل کی منظوری
مبینہ آڈیو میں بظاہر فواد چوہدری لگنے والا شخص اپنے بھائی ( فیصل چوہدری ) سے کہتے ہیں کہ اچھا ! میں نے کہا کہ ’سی۔ جے‘ (چیف جسٹس) لاہور کہہ رہا ہے کہ میری کوئی جنرل کرائیں بندیال کے ساتھ۔
انہوں نے اپنے بھائی سے مزید کہا کہ دوسرا اپنا، مظاہر کے ساتھ ڈار صاحب کے ذریعے، اُن کو زرا مل لیں، اُن سے کہیں کہ آپ کے ساتھ پورا ٹرک کھڑا ہے، آپ بتائیں کیا کریں؟۔
آڈیو لیک بے بنیاد اور من گھڑت تھی، شاہ محمود
فواد چوہدری نے فیصل چوہدری ایڈووکیٹ سے کہا کہ میری ذاتی تجویز یہ ہے کہ تارڑ پر تین چار جگہ استغاثہ کرائیں اور اس پر 228 لگوا کر اسے سزا دلوائیں تاکہ اِن پر پریشر تو آئے۔
جس پر فواد چوہدری کے بھائی فیصل چوہدری نے کہا کہ میں صبح کرلیتا ہوں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ صبح اُن سے پوچھ کر مجھے بتانا۔ جس پر فیصل چوہدری نے کہا کہ ٹھیک ہے۔
فواد چوہدری کا ردعمل
مبینہ آڈیو لیک پر سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک اور جعلی آڈیو میرے نام سے مارکیٹ میں پھینک دی گئی ہے،اس آڈیو کا میرے سے کوئی تعلق نہیں۔
کب کب، کس کس کی مبینہ آڈیو اور ویڈیو لیک ہوئیں
واضح رہے کہ سیاسی منظر نامے سے منسلک آڈیو یا ویڈیو لیکس کا سلسلہ نیا نہیں، اس سے قبل بھی متعدد رہنماؤں اور دیگر شخصیات کی آڈیو اور ویڈیوز لیک ہوچکی ہیں۔
سال 1997-99
نواز شریف کے دوسرے دورے حکومت میں احتساب کرنے والے ادارے کے سربراہ سینیٹر سیف الرحمان کی وہ مبینہ آڈیو کافی مشہور ہوئی جس میں احتساب عدالت کے جج مسلم لیگ ن کے رہنما سیف الرحمان سے مشورہ مانگ رہے ہیں کہ وہ بے نظیر اور زرداری کو کتنی سزا دیں؟
آڈیو میں سیف الرحمان ملک محمد قیوم سے، جو اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے جج تھے، سے ناراضگی سے کہتے ہیں کہ مجھے تم سے لڑائی کرنی ہے، جس کے جواب میں ملک قیوم کہتے ہیں کہ آج آپ کے سارے گلے دور ہو جائیں اور نواز شریف بھی خوش ہو جائیں گے۔
سیف الرحمان ضد کرتے ہیں کہ فیصلہ آج ہی کیا جائے لیکن ملک قیوم تھوڑا انتظار کا کہتے ہیں۔ جب سیف الرحمان بہت زیادہ زور دیتے ہیں تو ملک قیوم کل فیصلہ کرنے کا کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پھر وہ دونوں (بے نظیر اور زرداری) نواز شریف سے معافی بھی مانگ لیں گے۔
اس آڈیو لیک نے اس وقت کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی تھی اور اس کی وجہ سے آصف علی زرداری پر جھوٹے مقدمات بنانے کا تاثر بھی قائم ہوا تھا۔
سال 1997-99
نواز شریف کے ہی دوسرے دورے حکومت میں جنگ گروپ اور نواز حکومت میں تعلقات خراب ہوئے۔ جنگ گروپ نواز شریف کے شریعت بل کی مخالفت کر رہا تھا جب کہ کراچی کی صورتِ حال پر بھی اخبار کی پالیسی حکومت پر تنقید کرنے کی تھی۔
جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان نے کراچی پریس کلب میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں وہ مبینہ آڈیو چلائی تھی، جس میں سینیٹر سیف الرحمان ان کو حکومت کی حمایت کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں اور دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر جنگ گروپ نے ایسا نہیں کیا تو (سیف الرحمان) کو دوائی دینی آتی ہے۔
سال 2007
اکیس نومبر دو ہزار سات کو ایک صحافی ملک محمد قیوم سے انٹرویو لینے گیا اور اس دوران کسی اجنبی بندے کی کال ملک قیوم کے پاس آئی۔ ملک قیوم اس وقت مشرف کے اٹارنی جنرل تھے اور اس کال میں انہوں نے مبینہ طور پر آنے والے عام انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے بات چیت کی۔
یہ انٹرویو بے نظیر بھٹو کی ہلاکت سے پانچ ہفتے پہلے ہوا اور الیکشن کیمشن انتخابات کے شیڈول کا اعلان بھی کر چکا تھا۔ اس مبینہ آڈیوکو ہیومن رائٹس واچ نے اٹھارہ فروری دو ہزار آٹھ کو جاری کیا۔ ملک قیوم نے اس کو جعلی قرار دیا۔
سال 2014
دو ہزار چودہ کے دھرنے کے دوران اس وقت کے پی ٹی آئی رہنما عارف علوی اور عمران خان کے درمیان ہونے والی ایک فون کال کی مبینہ آڈیو آئی، جس میں عارف علوی یہ کہتے ہوئے سنائی دیے کہ وہ الطاف حسین کی کال کا رات دو ڈھائی بجے تک انتظار کرتے رہے لیکن انہوں نے کال نہیں کی۔ عمران خان انہیں پھر کال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اسی آڈیو میں عارف علوی نے عمران خان کو بتایا کہ پی ٹی وی میں دھرنے کے احتجاجیوں کے داخلے کے بعد نشریات بھی بند ہو گئی ہیں۔ عمران خان اس بات کو سراہتے ہیں اور انگریزی میں کہتے ہیں کہ ہمیں نواز کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرنا ہے۔ مبینہ آڈیو میں عمران خان کو کہتے ہوئے سنا جا سکتے کہ بصورت دیگر نواز استعفیٰ نہیں دیں گے۔
سال 2019
احتساب عدالت کے جج مرحوم ارشد ملک کی 2019 میں مبینہ غیر اخلافی ویڈیو منظرِ عام پر آئی، جس سے پاکستان کے سیاسی و عوامی حلقوں میں ہلچل مچی۔
سال 2019
اسی سال چیئرمین قومی احتساب بیورو ( نیب) کی بھی ایک مبینہ غیر اخلاقی ویڈیو لیک ہوئی جس میں وہ ایک خاتون کے ساتھ موجود تھے۔
سال 2021
سابق گورنر سندھ محمد بیر کی بھی ایک مبینہ غیر اخلاقی ویڈیو لیک ہوئی، جس میں وہ کسی ہوٹل میں خواتین کے ساتھ موجود تھے۔
پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے درمیان سرد جنگ کچھ برسوں قبل چل رہی تھی۔ اسی دوران سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر ایم کیو ایم کی طرف سے ایک وڈیو اپ لوڈ کی گئی، جس میں عمران خان کچھ ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے ہیں اور پاکستانی جنرلوں کے لئے انتہائی نازیبا زبان استعمال کر رہے ہیں۔
نواز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں پنجاب کے وزیرِ تعلم رانا مشہود کی وڈیو چینل پر چلائی گئی جس میں وہ مبینہ طور پر رشوت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس معاملے کی بھی بہت
معروف اینکر عامر لیاقت حسین کی لیکڈ وڈیو نے بہت دھوم مچائی، جس میں وہ ایک مذہبی پروگرام کی ریکاڈنگ کے دوارن فحش گالیا ں دے رہے ہیں۔ معروف صحافی حسن نثار کی بھی ویڈیو کچھ عرصے پہلے سامنے آئی جس میں وہ مبینہ طور پر اپنی ایک ساتھی خاتون اینکر کے خلاف انتہائی نازیبا زبان استعمال کر رہے ہیں۔
صحافی مہر اور مبشر لقمان کی بھی کچھ عرصے پہلے ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی، جس میں وہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کو انٹرویو کے سوالات اور طریقہ کار سے آگاہ کر رہے ہیں۔
مبینہ آڈیو لیک پر معروف سینیر صحافی مظہر عباس نے مائیکرو بلاگنگ سائٹ پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا