پراسرار موت کے شکار 18 افراد کی وجہ ہلاکت معلوم کیوں نہ ہوسکی؟

تحقیقات کی راہ میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسررکاوٹ بن گئے

گزشتہ ماہ 26 جنوری کو کراچی کے ضلع کیماڑی سے دل دہلا دینے والی خبر منظر عام پر آئی جس کے مطابق علی محمد گوٹھ میں 18 افراد، جن میں 16 بچے بھی شامل ہیں، دو ہفتوں کے دوران پراسرار بخار کے باعث انتقال کر گئے۔

خبر کے مطابق متاثرہ آبادی میں اس وقت بھی 30 سے 35 افراد اس پراسرار بخار میں مبتلا ہیں، اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد سندھ حکومت حرکت میں آئی اور فوری طور پر ڈاکٹرز کی ٹیم کو علی محمد گوٹھ بھیجا گیا۔

بخار میں مبتلا افراد نے طبی معائنے کے دوران ڈاکٹرز کو بتایا کہ ان کو سانس لینے میں دشواری پیش آرہی ہے۔ متاثرہ آبادی کے رہائیشیوں نے دعویٰ کیا کہ حال ہی میں اس علاقے میں بڑی تعداد میں غیرقانونی فیکٹریاں قائم کی گئی ہیں، ان فیکٹریوں سے نکلنے والے دھویں کی وجہ سے ڈیڑھ درجن افراد انتقال کرچکے ہیں۔

کراچی میں پراسرار بخار

مقامی انتطامیہ نے اہل علاقہ کے بیانات پر فوری ایکشن لیتے ہوئے وہاں قائم تمام فیکٹریوں کو فی الفور بند کرکے سندھ انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کو اطلاع دی۔ ماہر ماحولیات کی ٹیم نے متاثرہ علاقہ سے نمونے حاصل کئے لیکن صوبائی انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ فضاء سے لئے گئے نمونوں میں کسی مضر صحت مواد کی موجودگی کی تصدیق نہیں ہوئی۔

ماہر ماحولیات نے اپنی رپورٹ میں تجویز دی کہ طبی ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم بنائی جائے جو علی محمد گوٹھ میں ہونے والی اموات کی وجوہات کا تعین کرے۔

انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کی سفارشات پر عملدرآمد کرتے ہوئے محکمہ صحت سندھ نے طبی ماہرین پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی بنادی تاہم اسی دوران رواں ماہ 7 فروری کو سندھ ہائیکورٹ نے واقعے پر دائر رجسٹرار آفس کی آئینی درخواست پر سماعت کے دوران آئی جی سندھ کو حکم دیا کہ جاں بحق افراد کے لواحقین سے رابطہ کرکے مقدمات درج کئے جائیں۔

اعضاء کے نمونوں میں خطرناک کیمیکل

ہائی کورٹ نے آئی جی سندھ کو حکم دیا کہ واقعے کی تحقیقات کسی قابل افسر کے سپرد کی جائیں تاکہ پُراسرا اموات کی وجوہات کا تعین ہوسکے۔

کراچی پولیس کی درخواست پر جوڈیشل مجسٹریٹ نے 9 فروری کو اس پُراسرار بخار کے باعث انتقال کر جانے والے افراد کی قبر کشائی کی اجازت دی جس کے بعد محکمہ صحت سندھ نے ایک اسپیشل میڈیکل بورڈ بنا دیا اور اب تک متعدد افراد کی قبر کشائی کی جا چکی ہے مگر تاحال اموات کی وجہ کا تعین نہیں ہوسکا۔

پراسرار اموات کی وجوہات کا پتہ لگانے میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کیماڑی بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں کیونکہ وہ انکوائری کمیٹی کے ساتھ تعاون نہیں کررہے۔

انکوائری کمیٹی کے چیئرمین اور ممبر اسپیشل میڈیکل بورڈ پروفیسر ڈاکٹر نسیم احمد شیخ نے ضلع کیماڑی کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (ڈی ایچ او) کو خط لکھا ہے اور پابند کیا ہے کہ علی محمد لغاری گوٹھ کے رہائیشیوں کے حاصل کئے گئے نمونوں کی رپورٹس 3 دن میں جمع کروائیں۔

پروفیسر ڈاکٹر نسیم احمد، جو کہ ڈاؤ میڈیکل کالج کے ڈیپارٹمنٹ آف پیتھالوجی کے سربراہ بھی ہیں، نے ڈی ایچ او کو ہدایات دی ہیں کہ 26 جنوری کو متاثرہ علاقے میں ڈاکٹر اشوک اور ڈاکٹر سمیرا نے دورہ کیا تھا جن سے چند سوالات کے جوابات لے کر انکوائری کمیٹی کو جمع کروائے جائیں۔

علی محمد گوٹھ میں بھیجے جانے والے دونوں ڈاکٹروں سے پوچھا گیا ہے کہ ان کو اس فیلڈ میں کام کرنے کا کوئی تجربہ ہے؟، کیا انہوں نے اس سے قبل بھی اس طرح کی صورتحال اور ایسے واقعات کی تحقیقات کی ہیں؟، اور انہیں اس واقعے کا علم کب ہوا؟۔

سرکاری اسپتال بنیادی سہولیات سے محروم

تحقیقاتی کمیٹی نے ڈاکٹر سمیرا اور ڈاکٹر اشوک سے مزید پوچھا ہے کہ انہوں نے متاثرہ علاقے میں کتنے وقت یا مدت تک تحقیقات کیں؟، آپ نے متاثرہ آبادی کا پہلا دورہ کب کیا؟، آپ نے وہاں کیا دیکھا، آپ کی کیا فائنڈنگز ہیں اور آپ نے اس معاملے کا فوری حل کیا تجویز کیا؟۔

چیئرمین انکوائری کمیٹی کا کہنا ہے کہ ڈی ایچ او نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا، رہائیشیوں کا معائنہ اور ان سے حاصل ہونیوالی معلومات پر مبنی ایک فارم تیار کیا اب وہ متاثرہ آبادی کے رہائیشیوں کی ویکسینیشن اور ان کو دی جانے والی طبی امداد کے ثبوت بھی فراہم کریں۔

health issues

MISTEROUSE DEATH

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div