انتخابات میں تاخیر پراز خود نوٹس: وفاق،صدر، گورنر کے پی اور پنجاب کو نوٹسز جاری

دو سینیر ججز کو شامل نہ کرنے پر بار کونسل نے اعتراض اٹھا دیا

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر از خود نوٹس کیلئے بنائے گئے لارجر بینچ پر پاکستان بار کونسل نے اعتراض کردیا، جب کہ عدالتِ عظمی کی جانب سے صدرِ مملکت، الیکشن کمیشن، گورنر خیبر پختونخوا، گورنر پنجاب اور وفاقی حکومت کو نوٹسز جاری کردیئے ۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے آج بروز جمعرات 23 فروری کو از خود نوٹس کی سماعت کی۔

لارجر بینچ

بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہرمن اللہ شامل ہیں۔

آج سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بہت سی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے ازخود نوٹس لیا، آئین میں انتخابات کا وقت بتایا گیا ہے جو ختم ہورہا ہے، اگر ایمرجنسی ہو تو ہائی کورٹ کا فورم بائی پاس کیا جا سکتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کیلئے یہ آسان تھا کہ دو دائر درخواستیں مقررکر دیتی، سیکشن 57 انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ہے، بہت سے نئے نکات آگئے ہیں جن کی تشریح ضروری ہے۔

بات جاری رکھتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے تین معالات ہیں۔ وکیل تحریک انصاف علی ظفر نے بتایا کہ ہماری درخواست زیر التوا ہے، اسے بھی ساتھ سنا جائے۔ ہم نے دیکھنا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار کس کو ہے۔

بیرسٹر علی ظفر

دوران سماعت بییرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی سے متعلق چیزیں ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے، سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے، انتخابات میں تاخیر کو مزید طول نہیں دے سکتے۔

سماعت آگے بڑھی تو اس دوران سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سینیر وکلا کمرہ عدالت میں بیٹھے ہیں ان کی معاونت چاہیئے ہوگی، اس کیس کیلئے روٹین کے کیسز نہیں سنیں گے۔

جسٹس مندوخیل

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ از خود نوٹس پر تحفظات ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ از خود نوٹس بعد میں لیا پہلے اسپیکرز کی درخواستیں دائر ہوئیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بینچ میں تھے جس میں چیف الیکشن کمشنر کو بلایا گیا۔

اٹارنی جنرل

اس دوران اٹارنی جنرل نے کیس کی تیاری کے لیے وقت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اتنے لوگوں کو نوٹس ہوگا تو کل کے لیے تیاری مشکل ہوپائے گی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت پیر کو کریں گے، ہمارے سامنے بہت سے فیکٹرز تھے جن کی بنیاد پر از خود نوٹس لیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آوٹ ڈیڈٹ دونوں درخواستوں پر وضاحت کی ضرورت ہے، 20فروری کو صدر کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد صورت حال بدل گئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کچھ سوال دونو ں اسمبلی کے اسپیکرز نے اپنی درخواستوں میں شامل کیے ہیں، سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے، انتحابات کا ایشو وضاحت طلب ہے۔ چیف جسٹس ہم اردارہ رکھتے ہیں آپ سب کو سنیں، ہم نے آئندہ ہفتے کا شیڈول منسوخ کیا ہے، تاکہ یہ کیس چلا سکیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں، یہ ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے اسپیکر درخواست ہیں، یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے نوٹ پر لیا گیا، اس کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو بھی بلایا گیا ہے جو کہ فریق نہیں ہیں۔

دوران سماعت وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ازخود نوٹس میں اگر فیصلہ انتخابات کرانے کا آتا ہے تو سب کو ہو فائدہ ہوگا، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو سب سیاسی جماعتیں فائدہ حاصل کرینگی، شعیب شاہی نے کہا کہ یہ ٹائم باونڈ کیس ہے اس میں انتخابات کرانے کا ایشو ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‏آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہونگے، ‏وقت جلدی سے گزر رہا ہے، ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا۔

دوران سماعت جسٹس جمال جان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ چھ آڈیو سامنے آئی ہیں، جس میں عابد زبیری کچھ ججز کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، ان حالات میں میری رائے میں یہ کیس 184(3) کا نہیں بنتا۔

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم نے اس کیس میں آئینی شک پر بات کر رہے ہیں، پہلا سوال یہ ہوگا کہ اسمبلی آئین کے تحت تحلیل ہوئی یا نہیں، دوسرا سوال یہ ہے کہ اسمبلی کو بھی 184(3) میں دیکھنا چاہیے۔

جسٹس منیب نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا میرے خیال میں تمام سیاسی جماعتوں کو سننا چاہیے، جمہوریت میں سیاسی جماعتیں حکومت بناتی ہیں۔

دوران سماعت وکیل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں اور حکومت کو قانونی مؤقف دینا چاہیے، اس لیے بلایا جاسکتا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ ایک اہم ایشو ہے ،اس کا مقصد ٹرانسپرنسی اور عدالتوں پر اعتماد کی بات ہے۔

وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ ہائیکورٹ کا ریکارڈ منگوایا جائے ، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو بھی سنا جائے ، وکیل عابد زبیری نے کہا کہ صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ جاری کی ہے، آج ہم نوٹس کے علاؤہ کچھ نہیں کریں گے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ جب اسپیکرز نے درخواست دی، اس وقت صدر اور الیکشن کمیشن میں خط وکتابت شروع ہوئی، درخواستوں میں گورنرز کی جانب سے الیکشن اعلان نہ کرنے کو چیلنج کیا گیا۔

وکیل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں اور حکومت کو قانونی مؤقف دینا چاہیے، اس لیے بلایا جاسکتا ہے۔

نوٹسز جاری

سماعت کے دوران عدالت کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان، صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی، گورنر خیبر پختونخوا اور پنجاب، وفاقی حکومت، چیف سیکریٹری، اٹارنی جنرل آف پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرلز کو اگلی سماعت کیلئے نوٹسز جاری کیے گئے، جب کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے صدر شعیب شاہین، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل علی ظفر، اسپیکر پنجاب اسمبلی اور اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کے وکلا کو بھی نوٹس کیے گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہم نوٹس کے علاؤہ کچھ نہیں کریں گے۔ عدالت نے کہا کہ پی ڈی ایم پیپلز پارٹی کو بھی نوٹس جاری کرتے ہیں، صدر مملکت، گورنرز کے پرنسپل سیکریٹری ریکارڈ پیش کریں، عدالت نے پاکستان بار کونسل، صدر سپریم کورٹ بار سمیت چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کی معاونت کریں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا ہائی کورٹ بار کی درخواست کے لیے منظوری ہے، شیعب شاہین نے کہا کہ دس ایک سے قرارداد منظور کی ہے، الیکشن کا حکم کسی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں ہوگا، یہ درخواست کسی کے خلاف نہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فریقین کو آنے دیں اور بتانے دیں کہ الیکشن چاہتے ہیں یا نہیں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ یہاں ایشو ہے کہ اسمبلی کی تحلیل اور عام انتخابات کیسے ہوں گے، اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس میں پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کو نوٹس کیا گیا تھا، موجودہ کیس اسپیکر رولنگ سے مختلف ہے۔

وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ ہائیکورٹ کا ریکارڈ منگوایا جائے ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو بھی سنا جائے، وکیل عابد زبیری نے کہا کہ صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ جاری کی ہے۔ جس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے ازخود نوٹس کی سماعت کل بروز جمعہ 24 فروری تک ملتوی کردی۔

یہں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے یہ از خود نوٹس ایسے وقت میں لیا گیا جب کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پیر کے روز یکطرفہ طور پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر مشاورت کے بیان کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

بار کونسل کا بینچ پر اعتراض

اس موقع پر پاکستان بار کونسل کی جانب سے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا۔

سماعت کے دوران ہی بار کونسل کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز اور جسٹس طارق مسعود کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔ یہ دونوں ججز سپریم کورٹ کے سینیر ترین ججز ہیں، ججز کو شامل نہ کرنے سے کیس میں غیر جانبداری ظاہر ہوتی ہے۔ بار کونسل نے امید ظاہر کرتے ہوئے اعلامیے میں کہا ہے کہ امید ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی رضا کاررانہ طور پر بینچ سے الگ ہوجائیں گے۔

3 سوالات

قبل ازیں از خود نوٹس پر سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ازخود نوٹس 3 سوالات پر لیا جائے گا، پہلا یہ کہ اسمبلی تحلیل ہونے پرالیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ دوسرا ، انتخابات کی تاریخ دینے کا آئینی اخیتار کب اور کیسےاستعمال کرنا ہے؟ تیسرا اور اہم سوال وفاق اور صوبوں کے عام انتخابات کے حوالے سے ذمہ داری کیا ہے؟۔

انتخابات کی تاریخ کون دے گا

سپریم کورٹ کے ریمارکس میں یہ بھی کہا گیا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل ہوئے ایک ماہ سے زائد گزر چکا ہے ، ایک ماہ سے زائد وقت گزرنے کے باوجود تاحال انتخابات کی تاریخ نہیں دی گئی، صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جس پر اعتراضات اٹھائے گئے، اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار وضاحت طلب ہے۔

عدالت عظمیٰ کے مطابق دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کیسے اور کون دے سکتا ہے، الیکشن کمیشن بھی سیکیورٹی سمیت فنڈز نہ ملنے کی شکایت کر چکا ہے۔

ن لیگ کا ججز پر اعتراض

دوسری جانب وفاقی حکومت نے 9 رکنی بینچ میں شامل دو ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کی شمولیت پر اعتراض اٹھایا گیا ہے، وفاقی وزیر رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ ہمیں امید ہے دونوں ججز ہمارے تحفظات کی وجہ سے بینچ سے علیحدہ ہوجائیں گے۔

علاوہ ازیں پاکستان بار کونسل نے بھی از خود نوٹس کیس میں 9 رکنی بینچ پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے کہا کہ اس معاملے پر فُل کورٹ بینچ بننا چاہیے تھا۔

نوٹ : ازخود نوٹس میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ آئین کے تحت مختلف حالات میں کسی صوبائی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری اور اختیار کس کے پاس ہے۔

صدر کی جانب سے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان

واضح رہے کہ رواں ماہ 20 فروری کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا۔

ایوان صدر سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ صدر عارف علوی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 ایک کے تحت 9 اپریل بروز اتوار کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات کا اعلان کر دیا ہے۔

خط میں الیکشن کمیشن کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 دو کے تحت الیکشن کا پروگرام جاری کرے اور چونکہ کسی بھی عدالتی فورم کی جانب سے کوئی حکم امتناع نہیں لہٰذا سیکشن 57 ایک کے تحت صدر کے اختیار کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

صدر عارف علوی نے لکھا تھا کہ آئین کے تحت آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف لیا ہے، آئین اور قانون 90 دن سے زائد کی تاخیر کی اجازت نہیں دیتا لہٰذا آئین کی خلاف ورزی سے بچنے کے لیے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اپنا آئینی اور قانونی فرض ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

انہوں نے لکھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنرز صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 دن کے اندر اندر الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کی اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے، الیکشن کمیشن بھی پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کی اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا، دونوں آئینی دفاتر اردو کی پرانی مثل ’پہلے آپ نہیں، پہلے آپ‘ کی طرح گیند ایک دوسرے کے کورٹ میں ڈال رہے ہیں، اس طرزِ عمل سے تاخیر اور آئینی شقوں کی خلاف ورزی کا سنگین خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف ریفرنس دائر

سپریم کورٹ میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف آج بروز جمعرات 23 فروری کو ریفرنس دائر کر دیا گیا ہے۔ ایڈووکیٹ میاں داؤد کی جانب سے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف ریفرنس دائر کیا گیا۔

سپریم کورٹ میں دائر ریفرنس میں کہا گیا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے اثاثوں میں حالیہ دنوں میں 3 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے، وہ مس کنڈکٹ، ناجائز اثاثے بنانے کے مرتکت ہوئے ہیں، فرنٹ مین کے ذریعے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بڑے عہدوں پر ٹرانسفر پوسٹنگ بھی کراتے رہے۔

ریفرنس میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے ناجائز اثاثے، آڈیو لیک جسیے معاملات کی تحقیقات کی جائیں، سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دے۔

جسٹس مظاہر اکبر نقوی کیخلاف ریفرنس دائر کرنے والے میاں داود ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آج سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف ریفرنس جوڈیشل کونسل میں فائل کیا ہے، ریفرنس میں جسٹس مظاہر کے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آمدن سے زیادہ جائیدادیں جسٹس مظاہر نقوی کی ہیں، ان کی مبینہ آڈیو بھی آچکی ہے، سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، اگر مس کنڈکٹ میں آتا ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف کارروائی کرے۔

میاں داؤد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے اثاثوں پر تین بار تبدیلی کروائی، ان کے کچھ ایسے اثاثے ہیں جن کو کھبی ریکارڈ میں نہیں لایا گیا، جج مظاہر نقوی نے اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے پراپرٹی بنائی ہے، ان کے دو بیٹے لاہور ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں، ان کے ذریعے اپنی دولت میں اضافہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ زاہد رفیق فرنٹ مین وکلاء کے حلقوں میں مشہور ہیں کہ وہ اثرو رسوخ سے پیسے اکھٹے کرتے ہیں، ایک اکاونٹ کے ذریعے جج کی بیٹی کے تعلیمی اخراجات پورے کئے گئے، سپریم جوڈیشل کونسل جج سے تحقیقات کرے۔

SUPREME COURT OF PAKISTAN

RANA SANAULLAH

PMLN,

GENERAL ELECTIONS 2023

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div