پاکستان میں اب مرگی کے مریضوں کا سرجری سے علاج ممکن ہے، ماہرین

مرگی کے مریضوں کی اکثریت کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے، ماہرین صحت کی پریس کانفرنس

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ایپی لیپسی مکمل قابل علاج دماغی مرض ہے اور 70فیصد مریضوں کے دورے / جھٹکے مکمل طور پر کنٹرول ہوجاتے ہیں، باقی بیماریوں کی طرح اس میں بھی معالج کی ہدایات کے مطابق دوا لینی پڑتی ہے۔

ماہرین صحت کہتے ہیں کہ مہنگی ادویات علاج میں تاخیر کا سبب اور متاثرہ مریض کے اہلخانہ کیلئے اضافی مالی بوجھ کا سبب بنتی ہیں، ایپی لیپسی کی ادویات بھی (لائف سیونگ) جان بچانے والی دوائیں ہیں اگر کوئی مریض دوائیں نہ لے تو اس کے دماغ کے خلیے متاثر (ڈیمیج) ہونا شروع ہوجایا کرتے ہیں اور ایک بار دماغ کے خلیے ڈیمیج ہوجائیں تو وہ دوبارہ درست نہیں ہوتے، حکومت کو چاہئے کہ ادویات کی فراہمی یقینی بناتے ہوئے مریضوں کو ادویات پر سبسڈی بھی دے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 22 لاکھ ایپی لیپسی (مرگی) کے مریض ہیں، ان کی اکثریت دیہی علاقوں میں ہے جن کو تکلیف دہ سماجی مسائل کا سامنا کرتا پڑتا ہے، یہ مرض دیہی علاقوں میں زیادہ پایا جاتا ہے جس کا ثبوت 27.5 فیصد دیہی اور 2.9 فیصد شہری علاقوں میں مرگی کے مریضوں کا موجود ہونا ہے۔

ڈاکٹرز نے بتایا کہ پاکستان میں مرگی کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ دماغی انفیکشن ہے، جن میں دماغ کی ٹی بی، ٹائیفائیڈ، گردن توڑ بخار اہم وجوہات ہیں جبکہ سر میں چوٹ، شوگر اور بلڈ پریشر، مختلف نمکیات کی کمی یا زیادتی اور الکوحل کا استعمال بھی مرگی کی وجوہات میں شامل ہیں، یہ مرض ابتدائی عمر، جوانی اور 50 سال کے بعد بھی ہوسکتا ہے، بچپن میں انفیکشن یا آکسیجن کی کمی جبکہ 50 سال کے بعد مرگی ہونے کی اہم وجہ ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور برین ٹیومر ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مرگی کے 48 ہزار 200 مریضوں کیلئے صرف ایک نیورولوجسٹ ہے، اسی طرح ملک میں بچوں کے دماغی و اعصابی ماہرین کی تعداد بھی انتہائی کم ہے۔

کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ یہ چھوت کی بیماری نہیں، اسے اسٹگما نہ سمجھیں، شوگر کی طرح یہ بھی بیماری ہے، اس کے مریض نارمل زندگی گزار سکتے ہیں، اس مرض کی شکار خاتون کے ہاں نارمل بچے پیدا ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جو مرگی دواؤں سے ٹھیک نہیں ہوتی اس کی سرجری اب پاکستان میں ممکن ہے، جینیٹک ایپی لیپسی 5 سے 10 فیصد ہوتی ہے، بار بار تیز بخار ہونے اور سر کہ چوٹ سے بھی مرگی ہوسکتی ہے، ملک میں اس وقت 250 کے قریب نیورولوجسٹ ہیں۔

ڈاکٹر محمد واسع نے کہا کہ ایپی لیپسی کی دوائیں جان بچان والی ہوتی ہے، ان دواؤں کی بھی قلت ہے، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ دواؤں کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت مریضوں کو مفت دوائیں دے اور اس کیلئے بجٹ مختص کرے۔

Epilepsy

PAKISTAN HEALTH ISSUES

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div