نیب ترامیم سے کس کس نے فائدہ اٹھایا؟تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش
قومی احتساب بیورو (نیب) نے تحریک انصاف اور پی ڈی ایم حکومتوں میں نیب آرڈیننس میں کی گئی ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست سپریم کورٹ میں پیش کردی۔
چیف جسٹس پاکستان جستس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپہری کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت نیب نے پی ٹی آئی اور موجودہ دور حکومت میں ہونے والی نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش کردیں۔
نیب کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ نیب ترامیم سے وزیراعظم شہباز شریف، سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری نے فائدہ اٹھایا۔ نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں آصف زرداری کے قریبی ساتھی انور مجید اور اُن کا بیٹا بھی شامل ہے۔
بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض نے بھی حالیہ نیب ترامیم سے فائدہ اٹھایا۔ حالیہ ترامیم سے مستفید دیگر بڑے ناموں میں ظفر گوندل، نواب اسلم رئیسانی، لشکری رئیسانی، ارباب عالمگیر، عاصمہ ارباب عالمگیر اور شیر اعظم وسیر شامل ہیں۔
عمران خان کے دور میں ہونے والی نیب ترامیم سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، شوکت عزیز اور پرویز اشرف کے علاوہ سیف اللہ بنگش، لیاقت جتوئی اور جاوید اشرف قاضی نے فائدہ اٹھایا۔
رپورٹ کے مطابق نیب قانون میں کئی گی دونوں ترامیم سے ناصرف سیاستدان اور کاروباری افراد بلکہ سرکاری افسران نے بھی فائدہ اٹھایا۔
دوران سماعت کیا ہوا
بدھ کے روز وفاقی سپریم کورٹ کے روبرو حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل جاری رہے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون میں ترمیم کرکے سزا کی نوعیت بدل سکتی ہے، پارلیمنٹ سزاکی نوعیت بدلے تو اطلاق سزایافتہ پر بھی ہوتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا نیب ترامیم باقی آئینی شقوں سے متصادم ہونے پر کالعدم ہوسکتی ہیں؟ کیاسپریم کورٹ قانون سازی کے پیچھےممبران کی نیت کاتعین کرسکتی ہے؟ کیا یہ کہاجاسکتاہےکہ نیب ترامیم سے مخصوص طبقےکو فائدہ ہوا؟
جواب میں مخدوم علی خان نے کہا کہ کئی عدالتی فیصلوں میں ہےکہ بدنیتی کا الزام لگانا آسان اور لیکن اسے ثابت کرنا مشکل ہے، نیب ترامیم سب کے لئے ہیں،اس سے کسی مخصوص طبقےکو فائدہ نہیں پہنچا
دوران سماعت جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ نیا قانون موجودہ آئینی شقوں سے متصادم ہو تو کالعدم ہوسکتا ہے، ممکن ہے کہ عدالت اس نتیجے پر پہنچےکہ ترامیم سےحکومتی لوگوں کوفائدہ ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مقننہ نےعدلیہ کو قانون کالعدم قرار دینے کے وسیع اختیارات دے رکھے ہیں۔