پان، گٹکا، چھالیہ اور سیگریٹ کینسر کی بڑی وجوہات ہیں، ماہرین صحت
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی کینسر کی شرح کے پیش نظر علاج اور اس کی روک تھام کیلئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے، کراچی میں منہ کے کینسر میں مبتلا بچے بھی رپورٹ ہورہے ہیں، کینسر کی سب سے بڑی وجہ پان، گٹکا، چھالیہ، سیگریٹ اور اسی طرح کی دیگر اشیاء ہیں، پاکستان میں ہیڈ اینڈ نیک کینسر پہلے نمبر پر ہے۔
پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، جس میں کینسر فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر عابد جمال، ماہر امراض سرطان ڈاکٹر محمد علی میمن، انڈس اسپتال میں پیڈیاٹرک آنکالوجسٹ ڈاکٹر احمر حامد، ماہر امراض سرطان ڈاکٹر شاہین، ماہر امراض خون ڈاکٹر ثاقب انصاری، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر عبداللہ متقی، سیکریٹری ڈاکٹر ذیشان انصاری اور آغا خان اسپتال میں ریڈی ایشن انکولوجی کے ہیڈ ڈاکٹر بلال نے شرکت کی۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عابد جمال کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کینسر کی سینٹرل رجسٹری نہ ہونے سے کینسر کے مریضوں کے درست اعداد و شمار بھی موجود نہیں، البتہ یہ ضرور ہے کہ پاکستان میں بریسٹ کینسر میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کی وجوہات کا علم نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سر اور گردن کے کینسر کی بڑی وجہ پان، گٹکا، چھالیہ اور نسوار ہیں، ملک میں ہیڈ اینڈ نیک کینسر پہلے نمبر پر ہے، پاکستان میں کینسر کے ایک مریض پر اندازا 15 لاکھ روپے سے زائد اخراجات آتے ہیں۔
ڈاکٹر عابد جمال پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق کینسر کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان ہے، جن میں سے 10 سے 15 ہزار مریضوں کامیاب علاج ہو سکے گا، باقی کینسر کے مریضوں کا مکمل علاج نہیں ہوسکتا، انہیں صرف پلی ایٹو کیئر پر رکھا جاسکتا ہے۔
ماہر امراض سرطان نے کہا کہ منہ کے کینسر میں مبتلا مریضوں کی اکثریت 20 سے 25 سال کی عمر کے افراد کی ہے جو آپ کے ملک کا سرمایہ ہیں اور ان کے خاندانوں کا انحصار ان پر ہے، پان گٹکے پر پابندی پر عملدرآمد کرکے انہیں بچایا جاسکتا ہے۔
ماہر امراض سرطان ڈاکٹر محمد علی میمن نے کہا کہ کینسر کی بیماری ایپیڈیمیک کی طرح پھیل رہی ہے، پاکستان اٹامک انرجی کے 19 مراکز کینسر کے مریضوں کا ڈیٹا اکھٹا کرتے ہیں اور یہ کام ہم 5 سال سے کر رہے ہیں، مختلف علاقوں میں مختلف مسائل ہیں، پوری دنیا میں کینسر کے سالانہ 21 ملین نئے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، پاکستان میں یہ تعداد ایک سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 40 سے 50 فیصد کینسرز پری وینٹیبل ہیں، اگر ان کی جلد تشخیص ہوجائے تو کینسر کے مریضوں کا علاج آسان ہوجاتا ہے اور اس پر قابو پاکر اسے پھیلنے سے روک سکتے ہیں، کراچی میں منہ کا کینسر پہلے نمبر پر اور دنیا میں دسویں نمبر پر ہے، صرف کراچی ہی نہیں ٹھٹھہ، بدین اور ساحلی پٹی پر منہ کا کینسر بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔
ڈاکٹر شاہین نے کہا کہ پان، گٹکا، چھالیہ غریب علاقوں کے مسائل ہیں اور ان ہی علاقوں میں منہ کا کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے، ہمیں بچوں کو تعلیم اور آگہی دینا ہوگی، ہم اسکولز میں آگاہی دے رہے ہیں اور کچی آبادیوں میں کیمپ لگارہے ہیں۔
ڈاکٹر احمر حامد کا اس موقع پر کہنا تھا کہ انڈس اسپتال میں 11 سے 12 سال کی عمر کے بچے منہ میں چھالوں کے ساتھ رپورٹ ہوتے ہیں جو آگے چل کر کینسر کی شکل اختیار کرجاتا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ بچوں میں پان، گٹکا اور چھالیہ کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر مریض بچے غریب علاقوں سے آتے ہیں، پاکستان میں کینسر کی بڑھتی ہوئی شرح اور اس کا دباؤ ہم برداشت نہیں کرسکتے، اس کا واحد حل پری وینشن ہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 20 فیصد اموات منہ اور بریسٹ کینسرز سےہوتی ہیں، اس کیلئے ہمیں مشترکہ طور پر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر ثاقب انصاری کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے کینسر کے علاج کیلئے کام کرنیوالی تمام سوسائٹیز اور ماہرین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا ہے تاکہ کینسر کے خلاف مل کر کام کیا جائے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں بڑھتی ہوئی کینسر کی شرح اور اس دباؤ کا حکومت اور کوئی بھی ادارہ اکیلے مقابلہ نہیں کرسکتا، اس لئے ہم جلد اس حوالے سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم کا اعلان کریں گے، اس پر ابتدائی بات چیت ہوچکی ہے اور جلد وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر صحت سندھ سمیت دیگر کو مدعو کرکے اس اہم مسئلے پر بات کریں گے اور حکومت کو بھی آن بورڈ لیں گے۔
ڈاکٹر بلال نے پریس کانفرنس میں کہا کہ کینسر کے مریض کا علاج کسی ایک ایکسپرٹ کا کام نہیں، بہت سی فیلڈز کے لوگ مل کر کینسر کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں، پاکستان میں کینسر کے مریضوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے 200 ریڈی ایشن مشینوں کی ضرورت ہے، کیونکہ ریڈی ایشن کیلئے مریضوں کو دو دو مہینوں کا وقت دیا جاتا ہے۔