فافن نے سندھ بلدیاتی الیکشن سے متعلق تفصیلی رپورٹ جاری کردی

نتائج میں غیر ضروری تاخیر نے پرامن انتخابی عمل کو گہنا دیا، فافن

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے سندھ بلدیاتی الیکشن سے متعلق تفصیلی رپورٹ جاری کردی۔

رپورٹ کے مطابق سند ھ کے مقامی حکومتوں کے انتخابات کے دوسرے مرحلے کے دوران کراچی اور حیدر آباد ڈویژن میں ووٹ ڈالے جانے کی شرح میں خاصا فرق رہا جبکہ انتخابی عمل پرامن اور نسبتاً منظم رہا تاہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی نتائج میں تاخیر کی بنا پر لگائے جانے والے دھاندلی کے الزامات نے انتخابات کی شفافیت کو متاثر کیا ہے۔

یاد رہے کہ کراچی اور حیدرآباد ڈویژنوں کے 16 اضلاع میں کل 3508 نشستوں کے لیے 15 جنوری 2023 کو ہونے والے یہ انتخابات گذشتہ برس جولائی سے تاخیر کا شکار تھے ۔ صوبے میں سیلاب اور بعد ازاں سکیورٹی اہلکاروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے تین مرتبہ انتخابات کی تاریخ تبدیل کی گئی۔

انتخابات سے دو روز پہلے صوبائی حکومت کی طرف سے کراچی اور حیدر آباد میں یونین کونسلوں کی تعداد مقرر کرنے کا نوٹیفیکیشن واپس لے لیا گیا تاہم الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کو قانون سے متصادم قرار دیتے ہوئے کرتے ہوئے انتخاب کی تاریخ نہ بدلنے کا حکم نامہ جاری کیا ۔ موجودہ حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں پر معترض جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا جس کی وجہ سے کراچی اور شہری حیدرآباد میں ووٹر ٹرن آؤٹ میں کمی واقع ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق عام انتخابات کے سال میں انتخابی عمل کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والے تنازعات سے اچھا تاثر پیدا نہیں ہوگا۔ ان میں سے بہت سے تنازعات انتخابی قانون میں موجود کمزوریوں کی وجہ سے جنم لیتے ہیں جن کو سیاسی جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے کی جانے والی انتخابی اصلاحات کے ذریعے ہی دور کیا جاسکتا ہے۔ شکوک و شبہات سے پاک انتخابات کے ذریعے ہی ملک میں سیاسی استحکام آسکتا ہے، ورنہ دوسری صورت میں جمہوریت مزید کمزور ہوگی اور شہریوں کا جمہوری عمل پر اعتماد متزلزل رہے گا۔

رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ انتخابی قانون الیکشنز ایکٹ 2017 کے تحت خود کو حاصل اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے کے جائز خدشات کو دور ہر ممکن حد تک دور کرنے کی کوشش کرے تاکہ ایسے انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جاسکے جن میں تمام شہری شامل ہوں اور کسی جماعت کے انتخابی بائیکاٹ کی نوبت پیش نہ آئے۔

فافن رپورٹ کے مطابق سیاسی تنازعات اور انتخابات سے متعلق غیر یقینی صورتحال کے باوجود بدین، جامشورو، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو اللہ یار، ٹھٹھہ اور ملیر کے اضلاع میں ووٹروں کی ایک نمایاں تعداد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا البتہ کراچی سینٹرل ، کراچی ایسٹ ، کراچی ویسٹ ، کراچی ساؤتھ، کورنگی، حیدرآباد اور کیماڑی کے اضلاع میں ووٹر ٹرن آؤٹ نسبتاً کم رہا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حیدرآباد ڈویژن میں ٹرن آؤٹ 40 فیصد سے زائد رہا جبکہ کراچی میں ملیر کے علاوہ 20 فیصد سے بھی کم رہا۔ واضح رہے کہ 2015 کے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں ٹرن آؤٹ بالترتیب 36 اور 58 فیصد تھا۔

فافن کی رپورٹ کے مطابق انتخابات کے پہلے مرحلے کے مقابلے میں حالیہ مرحلے کے دوران ووٹنگ کا عمل زیادہ منظم رہا تاہم پولنگ اسٹیشن کے اندر اور ان کے اطراف میں انتخابی اشتہارات اور تشہیری مہم سے متعلق بے ضابطگیوں کے ساتھ ساتھ بیلٹ پیپر کے اجرا سے متعلق بے قاعدگیاں دوسرے مرحلے میں بھی برقرار رہیں۔ دوسرے مرحلے میں انتخابات کے دن کا ماحول بڑی حد تک پرامن رہا۔

پولنگ کے دوران فافن کے مشاہدہ کاروں پولنگ اسٹیشنوں پر تلخ کلامی کے 14 واقعات رپورٹ کیے جبکہ پہلے مرحلے کے دوران تشدد کے 55 واقعات دیکھنے میں آئی تھے جن میں مسلح جھڑپیں بھی شامل تھیں۔

دھاندلی کے الزامات کے باوجود کراچی ڈویژن کے عبوری نتائج دو دن کے اندر موصول ہو گئے تھے لیکن حیدرآباد ڈویژن کے مجموعی نتائج کا ابھی بھی انتظار ہے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ 10 جون 2022 کے نوٹیفیکیشن کے مطابق مجموعی انتخابی نتائج کی تیاری کے لیے 4 دن مختص کیے گئے تھے۔

فافن کےمشاہدہ کاروں کے مطابق پریزائیڈنگ افسران کی جانب سے تیار کردہ پولنگ اسٹیشن کے نتیجے کے فارموں ( فارم 11 ) میں کئی طرح کی خامیاں بھی دیکھنے میں آئی ہیں ۔ فافن کو موصول ہونے کئی فارموں میں پولنگ سٹیشنوں کے نام، رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد ، مردوں اور عورتوں کے ووٹوں کی الگ الگ تعداد ، اور پریزائیڈنگ افسران کے دستخط سمیت اہم معلومات درج نہیں کی گئیں۔

حالیہ انتخابی عمل کے مشاہدے کی روشنی میں فافن کی سفارش ہے کہ الیکشن کے دن انتخابی مہم چلانے سے متعلق ضابطہ اخلاق کے سخت نفاذ کو یقینی بنایا جائے جبکہ ووٹروں کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے پولنگ بوتھوں کے لیے مناسب جگہ رکھی جائے۔

ان انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن نے مجموعی طور پر 8,706 پولنگ سٹیشنز قائم کیے جن میں 1,204 مردانہ ، 1,170 زنانہ اور 6,332 مشترکہ پولنگ اسٹیشن شامل تھے۔ ان پولنگ اسٹیشنوں میں کل 30,399 پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے جن میں 15,649 مردانہ بوتھ اور 14,750 زنانہ بوتھ تھے۔ ان اضلاع میں رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد 13,986,896 تھی ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کل 2,491 (23 فیصد) پولنگ اسٹیشنوں کو انتہائی حساس جبکہ دیگر کو حساس قرار دیا گیا تھا۔

فافن کی یہ رپورٹ 343 پولنگ اسٹیشنوں (کل تعداد کا چار فیصد) سے موصول ہونے والے مشاہدات پر مبنی ہے جن میں 225 مشترکہ، 61 مردانہ اور 57 زنانہ پولنگ اسٹیشن شامل ہیں۔ فافن نے انتخابی عمل کے مشاہدے کے لیے کل 104 تربیت یافتہ شہری مشاہدہ کاروں کو تعینات کیا تھا جن میں 66 مرد اور 38 خواتین شامل تھیں۔

رپورت کے مطابق مشاہدہ کاروں نے الیکشن کے دن 90 پولنگ سٹیشنوں پر پولنگ کے آغاز ، 953 پولنگ بوتھوں پر انتخابی عملے اور سامان کی دستیابی اور 74 پولنگ اسٹیشنوں پر گنتی کے عمل کا مشاہدہ کیا نیز 1,121 ووٹروں کی شناخت اور انہیں بیلٹ پیپر کے اجرا کے مراحل کا بھی مشاہدہ کیا گیا۔

ECP

SINDH LOCAL BODIES ELECTION

Free and Fair Election Network

Tabool ads will show in this div