کالمز / بلاگ

بلوچستان میں آئندہ کی حکومت بنانے کی مشقیں

باپ پارٹی کے کئی رہنماء پیپلزپارٹی میں شامل

بجائے صوبے کے اندر سیکیورٹی کے حساس مسائل پر توجہ دی جائے اور اس کے حل کی راہیں متعین کی جائیں، اس کے برعکس سیاسی لوگ مستقبل کے انتخابی اور حکومتی بندوبست میں جتے ہوئے ہیں۔ ایسے میں کہ جب مرکز بشمول بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کے درمیان الجھاﺅ اور واضح تقسیم ہے کا فائدہ امن دشمن عناصر اٹھا رہے ہیں۔ کالعدم مسلح گروہ حملوں کی دھمکیاں دے چکے ہیں، مالی بحران اور معاشی تنزلی کی باتوں سے عوام اعصابی تناﺅ میں مبتلا ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی نے بلوچستان پر توجہ مرکوز رکھی ہوئی ہے اور آئندہ اپنا وزیراعلیٰ اور حکومت بنانے کی جدوجہد میں لگی ہوئی ہے۔

2008ء کے عام انتخابات سے پہلے بینظیر بھٹو کے قتل کا سانحہ عظیم پیش آچکا تھا، بلوچستان میں پشتونخوا میپ، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے انتخابات کا بائیکاٹ کر رکھا تھا، یہ فیصلہ آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کے تحت ہوا تھا، جس کے تحت جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے بھی انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا، چنانچہ پیپلز پارٹی جہاں وفاق اور سندھ میں کامیاب رہی وہیں بلوچستان میں بھی نشستیں جیت گئی۔

بعد ازاں پیپلزپارٹی میں آزاد ارکان بھی شامل ہوئے، اس طرح پیپلز پارٹی کی قیادت میں مخلوط حکومت قائم ہوئی، جس میں جمعیت علماء اسلام، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی شامل تھیں، مسلم لیگ قائداعظم حتیٰ کہ ن لیگ کا واحد رکن اسمبلی بھی اس حکومت کا حصہ بنا تھا۔

اس دور میں امن و امان کی صورتحال خرابی کی انتہاء پر تھی، دوسرے صوبوں کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ عام تھی، کوئٹہ کے ہزارہ عوام بلا تمیز جنس و عمر ہدف تھے، گویا ان کی نسل کشی ہورہی تھی۔ آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کی مدت حکومت کے بعد بھی بلوچستان پر نگاہ رکھے ہوئے تھے، 2018ء میں مسلم لیگ نواز، پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی کی حکومت کیخلاف لابنگ کا حصہ تھے، اس حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا ماحول بنانے میں پورا پورا کردار ادا کیا۔

پی پی کے سینیٹر قیوم سومرو اس مشن کے تحت کوئٹہ میں مقیم رہے، وہ عبدالقدوس بزنجو وغیرہ کے ہمراہ ہوتے، یہاں تک کہ جب مسلم لیگ نواز کی حکومت راندہ درگاہ کردی گئی تو عبدالقدوس بزنجو کو وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بٹھانے والے بھی سومرو ہی تھے، جام حکومت کیخلاف بھی پیپلز پارٹی غیر متعلق نہ تھی، اب پیپلز پارٹی نے مشقیں مزید تیز کر رکھی ہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے لوگ پیپلزپارٹی میں شامل ہورہے ہیں، حال ہی میں اراکین بلوچستان اسمبلی ظہور بلیدی، عارف جان محمد حسنی، سلیم کھوسہ اور تحریک انصاف کے رکن اسمبلی نعمت اللہ زہری پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ ما بعد 7 جنوری 2023ء کو سابق وفاقی وزیر سردار فتح محمد حسنی، سابق صوبائی وزیر طاہر محمود خان، نوابزادہ جمال رئیسانی نے کراچی کے بلاول ہاﺅس جاکر آصف علی زرداری سے ملاقات کی اور پارٹی میں شامل ہونے کا اعلان کردیا۔

سردار فتح محمد حسنی کی پیپلز پارٹی میں واپسی ہوئی ہے، وہ ماضی میں بھی اس جماعت سے وابستہ رہے، 1985ء کے الیکشن میں آزاد حیثیت سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے پھر وفاقی وزیر بنے، سینیٹر بھی رہے ہیں۔ طاہر محمود خان کے بھائی شفیق احمد خان پیپلز پارٹی کے رہنماء تھے، جنہیں اکتوبر 2009ء میں گھر کے باہر کالعدم بلوچ مسلح تنظیم نے قتل کیا، اس وقت وہ نواب اسلم رئیسانی کی کابینہ میں وزیر تعلیم تھے۔ شفیق احمد خان 2002ء میں بھی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن بلوچستان اسمبلی رہے۔

جمال رئیسانی سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کے چھوٹے بھائی نوابزادہ سراج رئیسانی کے بیٹے ہیں، سراج رئیسانی کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے تھا۔ سراج رئیسانی 2018ء کے الیکشن سے چند روز قبل 13 جولائی کو مستونگ میں انتخابی مہم کے دوران ایک خودکش حملے میں 100 سے زائد دیگر افراد کے ہمراہ لقمۂ اجل بنے تھے۔ والد کی موت کے بعد جمال رئیسانی بھی بی اے پی سے وابستہ رہے، اس وقت وزیراعلیٰ بلوچستان کے کوآرڈینیٹر برائے امور نوجوانان ہیں۔ یقیناً مزید لوگ بھی پیپلزپارٹی سے رجوع کریں گے۔

نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے سابق صوبائی وزیر گزین مری کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کی بھی باتیں ہورہی ہیں، گزین مری کئی سال تک بیرون ملک جلا وطن رہے، ان پر کئی سنگین مقدمات قائم تھے، 2017ء میں وطن واپس آکر مقدمات کا سامنا کیا اور بری ہوگئے۔ فی الحال ان کی جانب سے پیپلزپارٹی میں جانے کی تردید بھی سامنے آئی ہے۔

یہ منظر نامہ مستقبل کے سیاسی خدو خال کا پتہ بتاتا ہے، گویا بلوچستان کا مینڈیٹ پیپلز پارٹی کو ملے جانے کا قوی امکان واضح ہے۔ ممکن ہے کہ وفاق میں بھی ہم کاری ہو، یہ منظر نامہ اس امر کو عیاں کرتا ہے کہ مسلم لیگ نواز کے ساتھ ہاتھ ہونے جارہا ہے۔ مسلم لیگ نواز حاضر وقت معاشی اور سیاسی الجھنوں میں مبتلا ہے، مسلم لیگ نواز کیلئے یہ لمحہ آنکھیں کھلی رکھنے کا ہے، بلوچستان کا میدان پیش نظر رہنا چاہئے۔

صوبے کی سیاسی جماعتیں بھی آپس میں لا تعلق دکھائی دیتی ہیں، جمعیت علماء اسلام میں بھی شمولیت ہوئی ہیں، چنانچہ صوبے کی سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر آئندہ کی حکومت سنبھال سکتی ہیں۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ عبدالمالک بلوچ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کو پیغام بھیج چکے ہیں، جس کے ہاں یا ناں کا انہیں انتظار ہے۔

بہرحال اس وقت کا تجزیہ یہی ہے کہ آئندہ کی حکومت بھی اپنی اصل میں بری حکمرانی کی مثال اور علامت ہوگی۔ صوبے کی محرومیوں میں مزید اضافہ یقینی ہے اور ایسی حکومت میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری کے امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ صوبے کی سیاسی جماعتیں یعنی بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتونخواملی عوامی پارٹی، جمعیت علماء اسلام، نیشنل پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی اخلاص نیت سے چاہیں تو پارٹیاں بدلنے والوں اور مخصوص مائنڈ سیٹ کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔

بلوچستان

ASIF ZARDARI

PAKISTAN PEOPLES PARTY (PPP)

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div