نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان؛ شرح سود میں ایک فیصد اضافہ

رواں سال شرح سود میں 525 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا جا چکا ہے

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئندہ ڈیڑھ ماہ کیلئے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا۔

اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں ملکی معاشی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور آئندہ ڈیڑھ ماہ کے لئے زری پالیسی کی منظوری دی گئی، اجلاس میں شرح سود 100 بیسس پوائنٹس یعنی ایک فیصد بڑھا کر 16 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کی تعیناتی اور نیے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے آنے کے بعد یہ دوسری مانیٹری پالیسی ہے، اس سے قبل بڑھتی مہنگائی کے پیش نطر مانیٹری پالیسی مسلسل سخت کی جارہی تھی اور اس پالیسی کے تحت رواں سال اب تک شرح سود میں 625 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا جا چکا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ مہنگائی کا دباؤ توقع سے زیادہ اور مسلسل ثابت ہوا، مہنگائی کا دباؤ روکنے کیلئے شرح سود میں اضافہ کیا۔

ایک جانب جہاں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی آئی ہے عالمی مارکیٹ میں تیل وگیس کے نرخ کے نرخ کم ہورہے ہیں تو دوسری جانب مہنگائی کے خدشات ابھی تک موجود ہیں جس کی وجہ سے شرح سود بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

مہنگائی تیزی سے بڑھ گئی، اسٹیٹ بینک

اسٹیٹ بینک کے مطابق اکتوبر میں عمومی مہنگائی تیزی سے بڑھ گئی۔ حالیہ سیلاب سے فصلوں کو ہونے والے نقصانات کے باعث غذائی اشیا کی قیمتوں میں کافی اضافہ ہوا اور قوزی مہنگائی مزید بلند ہوئی۔

درآمدات میں یکدم کمی کے نتیجے میں ستمبر اور اکتوبر دونوں مہینوں میں جاری کھاتے کے خسارے میں خاطر خواہ اعتدال آیا۔ اس اعتدال اور اے ڈی بی کی جانب سے تازہ فنڈنگ کے باوجود بیرونی کھاتے کی دشواریاں برقرار ہیں۔

حکومت کی جانب سے سیلاب کے نقصانات کے جائزے میں مالی سال 23ء میں لگ بھگ 2 فیصد نمو اور جاری کھاتے کا خسارہ جی ڈی پی کے تقریباً 3 فیصد ہونے کی پھر تصدیق کی گئی ہے جس کے بارے میں گزشتہ زری پالیسی بیان میں بتایا گیا تھا تاہم اب امکان ہے کہ بلند غذائی قیمتیں اور قوزی گرانی اوسط مہنگائی کو مالی سال 23ء میں بڑھا کر21-23 فیصد تک لے جائیں گی۔

اکتوبر میں سیمنٹ، پیٹرولیم مصنوعات اور گاڑیوں کی فروخت سمیت طلب کے بیشتر اظہاریے سال بسال بنیاد پر دو ہندسی سکڑاؤ کے عکاس تھے۔ رسد کے لحاظ سے بجلی کی پیداوار میں مسلسل پانچویں مہینے کمی ہوئی اور یہ 5.2 فیصد تک گرگئی۔

ستمبر میں ایل ایس ایم کی پیداوار گزشتہ برس کی نسبت کمزور رہی اور صرف برآمدی نوعیت کے شعبوں میں مثبت نمو ہوئی۔ زراعت کے متعلق تازہ ترین تخمینوں سے سیلاب کے سبب چاول اورکپاس کی فصلوں میں بھاری پیداواری نقصانات کا پتہ چلتا ہے جو مینوفیکچرنگ اور تعمیرات میں سست نمو سے مل کر اس سال کی نمو پر اثرانداز ہوں گے۔

بیرونی شعبہ

ستمبر اور اکتوبر میں جاری کھاتے کے خسارے میں مسلسل اعتدال دیکھا گیا اور یہ بالترتیب 0.3 اور 0.6 ارب ڈالر پر آ گیا۔ بحیثیت مجموعی مالی سال 23ء کے ابتدائی چار مہینوں میں جاری کھاتے کا خسارہ کم ہو کر 2.8 ارب ڈالر پر آ گیا جو گزشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں تقریباً نصف ہے۔ اس بہتری میں اہم کردار درآمدات میں وسیع البنیاد کمی نے ادا کیا جو 11.6 فیصد کمی کے ساتھ 20.6 ارب ڈالر پر آ گئیں جبکہ برآمدات 2.6 فیصد اضافے سے 9.8 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔

ترسیلات زر میں 8.6 فیصد کمی

دوسری جانب ترسیلات زر 8.6 فیصد کم ہوئیں اور 9.9 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جن سے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کی شرح مبادلہ کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق اور امریکی ڈالر کی مضبوطی کی عکاسی ہوتی ہے۔

فنانسنگ کے لحاظ سے ملک میں بے یقینی کی کیفیت اور سخت عالمی مالی حالات رقوم کی آمد پرمنفی اثرات مرتب کررہے ہیں اور اہم مرکزی بینک مسلسل پالیسی ریٹس میں اضافہ کر رہے ہیں۔ مالی سال 23ء کے ابتدائی چار مہینوں میں مالی کھاتے میں 1.9 ارب ڈالر کی خالص رقوم کی آمد ہوئی جو گزشتہ برس کی اسی مدت میں 5.7 ارب ڈالر تھی۔

مالیاتی شعبہ

مالی سال 23ء کے لیے تخمینہ شدہ سکڑاؤ کے باوجود پہلی سہ ماہی میں مالیاتی نتائج گذشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں بگاڑ کے عکاس ہیں۔ مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 0.7 فیصد سے بڑھ کر ایک فیصد ہو گیا، جبکہ بنیادی فاضل کم ہو کر جی ڈی پی کا 0.2 فیصد ہو گیا۔ اس کمی کا اہم سبب غیر ٹیکس محاصل میں کمی اور بلند سودی ادائیگیاں تھیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ایف بی آر کے ٹیکس محصولات میں نمو نصف ہو کر 16.7 فیصد (سال بسال) پر آگئی۔ سیلاب کےردعمل میں حکومت نے زرعی شعبے کے لیے ریلیف کے متعدد اقدامات کیے جن میں کاشت کاروں کو مارک اپ پر زراعانت اور زراعانت یافتہ خام مال کی فراہمی شامل ہیں۔

سیلاب کی وجہ سے سال کے لیے تخمینہ شدہ جارحانہ مالیاتی یکجائی کا حصول دشوار ہو سکتا ہے، لیکن اخراجات اور بیرونی گرانٹس کو دوبارہ مختص کر نے سے اضافی خرچ کی ضروریات پور ی کر کے انحراف کو کم از کم کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے جبکہ رقوم کی منتقلیاں صرف بہت ضرورت مند طبقات تک محدود رہیں۔ زری سختی کی معاونت کے لیے مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھنا ضروری ہے جو مل کر مہنگائی پر قابو پانے اور بیرونی کمزوریوں کو کم کرنے میں مدد دیں گے۔

INTEREST RATE

Monitory Policy

STATE BANK OF PAKISTAN (SBP)

Tabool ads will show in this div