پشتونخوا میپ کے 2 اعلیٰ عہدیداروں کو پارٹی سے نکال دیا گیا
پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات و نشریات رضا محمد رضا، اور مرکزی سیکرٹری عبید اللہ بابت تادیبی کارروائی کے تحت پارٹی سے فارغ کردیے گئے۔
پشتون خوا میپ کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کے دستخط سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 10 نومبر کے بعد ان رہنماﺅں کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ انہیں جماعتی نظم و ضبط اور فیصلوں کے خلاف سرگرمیوں کی پاداش میں پارٹی سے نکالا گیا ہے کہ یہ حضرات پارٹی کے بعض سینئر رہنماﺅں سے اپنی الگ جماعت بنانے یا کسی دوسری جماعت میں شامل ہونے کی خاطر رابطوں میں رہے۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ رہنما تنبیہ کے باوجود عوامی اجتماعات میں بیان بازیاں کرتے رہے۔ انہیں پارٹی کے اہم ادارے ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں بھی تنبیہ کی جاچکی تھی کہ اپنی اصلاح کریں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پارٹی ذمے دار پی ڈی ایم کے سوا دوسرے گروہوں اور پارٹیوں کے ساتھ رواں بلدیاتی انتخابات میں اپنی پارٹی کے طے شدہ فیصلوں کے خلاف اتحاد کرنے ہا پارٹی سے نکالے گئے افراد سے سیاسی روابط رکھنے پر نظرثانی کریں ورنہ وہ بھی پارٹی سے خارج تصور ہوں گے۔
پارٹی میں دھڑے بندی طویل عرصہ جماعتی انتخابات نہ ہونے کی وجہ ٹھہری ہے۔ یہاں تک کہ جولائی2018ءکے عام انتخابات سے پہلے عجلت کی فضا میں پارٹی انتخابات ممکن ہوسکے جو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قوانین اور ضابطوں کے تحت لازم تھے، وگرنہ پارٹی کو انتخابی نشان الاٹ نہ ہوتا۔
پیش ازیں پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین عبدالرحیم مندوخیل کی وفات کے بعد این اے 260 کی نشست خالی ہوئی تو ضمنی انتخاب پشتون خوا میپ کے امیدوار جمال ترہ کئی کو پارٹی انتخابی نشان درخت کے بجائے سوزوکی کے نشان کے تحت لڑنا پڑا ہے۔
عبیداللہ بابت متواتر اتحادی جماعت کے خلاف محاذ قائم رکھے ہوئے تھے، حالانکہ نکالے گئے یہ لوگ ذمے دار اور قدیم وابستگی کے حامل تھے۔ رضا محمد رضا سینیٹر رہے ہیں۔ عبیداللہ بابت متعدد بار صوبائی وزیر رہ چکے ہیں، اور اِن دنوں بھی دونوں افراد پارٹی کے مرکزی کلیدی عہدوں پر متمکن تھے۔
یہاں غالب طور پر پشتون تحفظ موومنٹ کو بطور حربہ استعمال کیا گیا۔ پی ٹی ایم کے جلسوں کا بندوبست پشتون خوا میپ کرتی، اس کے کارکن جلسوں میں شریک ہوتے، چندہ جمع کرتے۔ بعض واقعات کے رونما ہونے پر احتجاج کے بعد پی ٹی ایم کے نام سے تنظیمی صورت گری کی گئی۔ یہاں نوجوانوں کا خوب استعمال ہوا۔
پشتون خوا میپ کے ان افراد، پی ٹی ایم اور کابل حکومت کے ابلاغ میں رتی بھر فرق نہ تھا۔ یہ امریکی اور نیٹو قبضے کے خلاف لڑنے والوں کو دہشت گرد اور افغان دشمن ثابت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرتے۔ بادی النظر میں یہ سارا ابلاغ اور سیاسی شور شرابہ افغانستان کے شمال کے گروہ اور جماعتوں کو تقویت دیتا رہا۔ یوں مقصد براری کے بعد افراسیاب خٹک، محسن داوڑ وغیرہ نے پی ٹی ایم کے بطن سے نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے الگ پشتون قوم پرست جماعت نکال لی۔
چناں چہ یہ جماعت خصوصاً افغانستان کے تناظر میں عشروں پرانے فسادی نظریات کے پرچار پر کھڑی رکھی گئی ہے۔ یہ جماعت استعماری اور سامراجی ممالک کوافغانستان پر حملے کی شہ دیتی ہے۔ یہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کو افغانستان کے لیے تاریکی کا دور قرار دیتی ہے اور صریح طور پر افغانستان کے معاملات میں مداخلت کا ارتکاب کررہی ہے۔
محمود خان اچکزئی کا افغانستان کے بارے میں بعض حوالوں سے حالیہ نقطہ نظرصائب ہے۔ سیاسی حالات اور تقاضے مرورِ زمانہ سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی آج اگر افغانستان پر روسی اور امریکی جارحیت اور تسلط، اور افغانستان پر جدید ترین اور تباہ کن ہتھیاروں کے استعمال کا کہتے ہیں تو ہر گز غلط نہیں ہے۔
اس میں کلام نہیں کہ سوویت یونین پورے دس سال اپنی ڈیڑھ لاکھ فوج کے ساتھ افغانستان پر قابض رہا۔ اس عرصے میں وہاں مختلف ناموں، شکلوں اور تشکیلات کے ساتھ گروہی حکومتیں مسلط رہی ہیں۔ امریکہ نے بون کانفرنس کا ڈھونگ رچا کر فی الحقیقت افغانستان پر بعض منظورِ نظر پشتونوں مگر منجملہ شمال کے بڑوں اور ملیشیاﺅں کو مسلط کیا۔
جمہوریت اور انتخابات کی ملمع کاری کے ساتھ بیس سال تک افغانستان کی زمین اور فضاﺅں پر حاکمیت قائم کیے رکھی۔ افغانوں نے طالبان اور حزبِ اسلامی کی صفوں میں شامل ہوکر امریکہ اورنیٹو کے خلاف آزادی، استقلال اور اقتدارِ اعلیٰ کی طویل جنگ لڑی ہے اور 29 فروری 2020 کو دوحا میں مذاکرات بھی قابض امریکہ کے ساتھ ہو ئے ہیں۔
موجودہ افغان حکومت تنقید سے مبرا ہر گز نہیں ہے، مگر یہ حقیقت فراموش نہیں کی جاسکتی کہ یہ افغانستان کی خود مختاری اور جغرافیائی سلامتی کی محافظ ہے۔ افغانستان کو ایک ایسے ہی مو¿ثر اور ہمہ گیر حاوی نظام اور سیاسی نظم و ضبط کی ضرورت ہے۔ گویا محمود خان اچکزئی کی 19اگست2022 ءکو اسلام آباد میں قائم افغان سفارت خانے میں یوم استقلال کی تقریب میں شرکت، افغانستان کی موجودہ صورتِ حال بارے فرمودات، ادراک اور زمینی حقیقتوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
غرضیکہ نکالے گئے افراد کا اخراج کے خلاف ہاتھ پیر مارنا یا کوئی بھی ردعمل وقتی دھول کے سوا کچھ نہ ہوگا، وہ اس لیے کہ محمود خان اچکزئی پارٹی کارکنان کے انتہائی محبوب ہیں۔