سندھ حکومت نے کراچی کے تاریخی ڈی جے کالج کو بند کرنے کی ٹھان لی
سندھ حکومت نے کراچی کے تاریخی ڈی جے کالج کو بند کرنے کی ٹھان لی۔
اس سال کالج میں صرف 86 طلباء کو داخلے دینے کا انکشاف ہوا ہے تاکہ داخلوں میں کمی کو جواز بناکر کالج کو مستقل طور پر بند کرنے کی راہ ہموار کی جاسکے، کالج کے اہم حصوں پر پہلے ہی سرکاری محکمے قبضہ جما چکے ہیں۔
کراچی میں نوآبادياتی دور کی یاد دلانے والے پرشکوہ ڈی جے سائنس کالج میں 1887 میں قيام کے بعد سے درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے مگر 135 سال بعد اس کالج کے دروازے طلبا پر بند کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔
ڈی جے سائنس کالج میں ہر سال پری انجنیئرنگ میں کم و بیش 600 داخلے دیئے جاتے تھے مگر اس سال يہ فہرست صرف 86 کے ہندسے پر تمام ہوگئی۔ ریکارڈ کے مطابق گزشتہ سال ڈی جے سائنس کالج کے پری انجینیئرنگ گروپ میں 575 داخلے دیے گئے تھے۔
ڈی جے سائنس کالج کے ایک ليکچرر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سماء کو بتایا کہ اس سال داخلوں میں پچاسی فیصد کمی ہوئی ہے۔ سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسو سی ایشن (سپلا) کے رہنما پروفیسر عبدالمنان بروہی کا کہنا ہے کہ اس عمارت کا بطور کالج استعمال ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
سماء نے داخلوں میں کمی کے معاملے پر کئی بار ڈی جے سائنس کالج کے پرنسپل مہرمنگی سے رابطہ کیا تو انہوں نے مسلسل ٹال مٹول کے بعد ڈی جی کالجز سے بات کرنے کا مشورہ دے دیا۔
جب سماء نے ڈی جی کالجز محمد علی مانجھی سے رابطہ کیا تو انہوں نے يہ کہہ کر ہاتھ کھڑے کرليے کہ ڈی جے سائنس کالج کے معاملات براہ راست اسپیشل سیکریٹری دیکھتے ہیں۔
سماء یہ معاملہ لیکر اسپیشل سیکریٹری عبدالعلیم لاشاری کے پاس پہنچا تو انہوں نے غلط بيانی سے بھی گريز نہيں کيا، تاریخی عمارت پر مختلف محکموں کے قبضہ جمانے کے سوال عبدالعلیم لاشاری نے اسے عارضی قرار دیکر معاملے کی سنگینی کم کرنے کی کوشش کی۔
اسپیشل سیکریٹری کالجزعبدالعلیم لاشاری نے کہا الگ سے لوگ اپروچ کرتے تھے کہ ہمیں کالج میں داخلہ چاہئے، ہمیں اپنے کلاس رومز کو بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ وہاں گنجائش سے زیادہ بچے نہ ہوں۔ اسی حساب سے داخلے ہوتے ہیں اور یہ تعداد کم تو بالکل نہیں ہوئی ہے زیادہ ہوئی ہے۔
اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ داخلوں ميں کمی کا مقصد اس منصوبے کو آگے بڑھانا ہے جس کے تحت تاریخی عمارت کے اہم حصوں پر مختلف سرکاری محکمے پہلے ہی قبضہ جما چکے ہیں، جو کمرے کلاس رومز تھے وہ بند پڑے ہیں، یا خالی ہیں یا وہاں توڑ پھوڑ اور تعمیراتی کام جاری ہے، کلاسز اور اساتذہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے طلبہ و طالبات کو مضامین تک بدلنے پڑے ہیں۔
جس تاریخی عمارت کی حفاظت کیلئے اسے ہیریٹیج بلڈنگز کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا اس میں مختلف محکموں کو بسانے کیلئے پہلے ہی بہت ٹوٹ پھوٹ ہوچکی ہے۔ واش رومز بنا دیئے گئے ہیں اور تو اور ہیریٹیج بلڈنگز میں شامل پرنسپل بینگلو میں بھی الٹریشن کا کام جاری ہے۔