دی لیجنڈ آف مولا جٹ میں پنجابی کلچر ہی نہیں دکھایا، فلمساز سرور بھٹی
1979 میں ریلیز ہونے والی بلاک بسٹر پنجابی فلم مولا جٹ کے فلمساز نے دی لیجنڈ آف مولا جٹ پر کئی سوال اٹھادیئے ہیں۔
1979 میں ریلیز ہونے والی فلم مولا جٹ نے اپنے مکالموں اور لازوال کرداروں کی وجہ سے پاکستانی فلم انڈسٹری کا رخ موڑ دیا تھا۔ فلم کی عکس بندی میں بھی پنجاب کی دیہی ثقافت کو اجاگر کیا گیا تھا۔
پاکستانی فلمساز 4 دہائیوں تک اس فلم سے متاثر رہے اور اب نئے دور اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ یہ کردار ایک بار پھر سینما اسکرین پر جلوہ گر ہونے جارہے ہیں ۔
دی لیجنڈ آف مولا جٹ کی کہانی مولا جٹ سے ہی ماخوذ ہے لیکن اس میں کئی تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں، جن پر مولا جٹ کے فلمساز سرور بھٹی نے سماء ڈیجیٹل سے گفتگو کے دوران ماضی کو یاد کرتے ہوئے کئی سوال اٹھائے ہیں۔
دی لیجنڈ آف مولا جٹ کے کرداروں کا گیٹ اپ :
1979 میں پیش کی جانے والی پاکستانی فلم مولا جٹ کے فلمساز محمد سرور بھٹی نے کے مطابق مولا جٹ کی نئی فلم دی لیجنڈ آف مولا جٹ کے کرداروں کا حلیہ کہیں سے بھی پنجاب کے کلچر کی عکاسی نہیں کرتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹریلر کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا ہے کہ فلم کے یہ کردار Barbarian kingdoms سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بھارتی فلم Baahubali کے کرداروں سے مماثلت رکھتے ہیں۔
1979 میں بنائی جانے والی فلم مولا جٹ کے فلمی کرداروں کا میک اپ ، میک اپ ہیڈ نواب ساگر کی سرپرستی میں ہوا۔ نواب ساگر نے فلم مولا جٹ میں تھانےدار کا کردار بھی ادا کیا، جبکہ انہوں نے وحشی جٹ میں بھی کردار ادا کیا۔
سرور بھٹی کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی فلم کے لیے تمام کرداروں کے ملبوسات ان کی کمپنی کے ڈریس ماسٹر سے ڈیزائن کروائے۔ انہوں نے فلمی کرداروں کے کپڑے خود خریدے۔
دی لیجنڈ آف مولا جٹ کے نام کا تنازع:
سرور بھٹی نے کہا کہ نئی فلم والوں نے جب اس فلم کو بنانا شروع کیا تو مجھ سے اجازت نہیں لی۔ یہی وہ وجہ بنی کہ میں نے فلم کے خلاف قانونی کاروائی کا فیصلہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ اور Intellectual Property Tribunal نے ان کے حق میں فیصلہ کیا کیونکہ 1979 کی بنائی گئی مولاجٹ ان کی ملکیت ہے ۔ ٹریبیونل نے فلم کے ٹریڈ مارک کے حوالے سے میرے ہی حق میں فیصلہ کیا۔
سرور بھٹی نے کہا کہ نئی فلم دی لیجنڈ آف مولا جٹ کا نام بہت مرتبہ تبدیل اسی لیے ہوا کیونکہ ہر بار نئی فلم کے ٹائٹل میں مولا جٹ استعمال ہورہا تھا۔
ان کا کہنا تھا لگ بھگ 28 ماہ قانونی جنگ جاری رہی تاہم آخری میں فلم کی پروڈیوسر نے مجھ سے اجازت مانگی کہ ان کی فلم میں مولا جٹ کا نام استعمال کیا جاسکے ۔ پہلے فلم کا نام مولا جٹ رکھا گیا، پھر مولا جٹ 2 اور آخری میں دی لیجنڈ آف مولا جٹ رکھا گیا جس پر پھر ٹریبونل نے اعتراض اٹھایا تاہم بعد میں نے خود اس نام کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔
فلم ’’مولا جٹ‘‘ کے جملہ حقوق میرے پاس ہیں، میں نے ’’مولا جٹ‘‘ کے مکالموں کو استعمال کرنے کی اجازت دی ہے ، وہ فلم میں ڈائیلاگ کو صرف استعمال کرسکتے ہیں اس سے میرے کاپی رائٹس متاثر نہیں ہوں گے۔
مولا جٹ فلم کا کوئی سیکوئل نہیں
مولا جٹ کے اصل تخلیق کار محمد سرور بھٹی نے کہا کہ مولا جٹ صرف ایک ہی فلم تھی، اس کے بعد کئی ناموں سے مولا، جٹ اور نوری نتھ کے ناموں کو استعمال کرتے ہوئے فلموں کے ٹائٹل بنائے گئے۔ تاہم اصل مولا جٹ 1979 کی ہی مولا جٹ تھی ۔ مولا جٹ کے نام کو استعمال کرتے ہوئے کتنی ہی فلمیں بنائیں گئیں ۔ جیسے جٹ ان لندن ، مولا جٹ اینڈ نوری نتھ ،ضدی جٹ ، وحشی جٹ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔
مولا جٹ کا بجٹ
سرور بھٹی نے کہا کہ ان کی فلم مولا جٹ اس وقت کی مہنگی ترین فلموں میں شمار ہوتی تھی۔ اس وقت انہوں نے فلم کو ساڑھے چودہ لاکھ میں بنایا ۔
فلم کے بجٹ کو مکمل کرنے کےلئے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے گھر فروخت کیے اور دیگر پراپرٹی بھی بیچی۔ اس وقت ساڑھے چودہ لاکھ میں رائیونڈ روڈ پر پندرہ سو کنال زمین آجاتی تھی۔ انہوں نے اپنی فلم کے بجٹ کا موازنہ دی لیجنڈ آف مولا جٹ سے کرتے ہوئے کہا کہ آج رائیونڈ روڈ پر ایک کنال زمین پانچ کروڑ کی ہے۔ نئی مولا جٹ 40 سے 45 کروڑ کے بجٹ میں بنائی گئی ہے۔
دی لیجنڈ آف مولا جٹ کو بھی پاکستان کی تاریخ کی میگا بجٹ فلم قرار دیا جارہا ہے۔
مولا جٹ کے کرداروں کو کیا معاوضہ دیا گیا ؟
1979 میں پیش کی جانے والی مولاجٹ فلم کی کاسٹ مصطفیٰ قریشی ، سلطان راہی ، آسیہ چکوری ، سیما بیگم ، عالیہ سمیت شامل تھے۔
فلم میں مولا جٹ کے کردار کو سلطان راہی نے ادا کیا اس وقت انہوں نے 70 ہزار روپے کا مطالبہ کیا تھا جو کہ انہیں دیا گیا ۔ بعد میں فلم ہٹ ہوجانے کے بعد انہوں نے مزید 10 ہزار کا مطالبہ کیا جوکہ ان کے گھر میں پہنچایا گیا۔
مصطفیٰ قریشی نے فلم میں نوری نتھ کا کردار ادا کیا انہوں نے بھی 70 ہزار روپے کا معاوضہ وصول کیا۔
آسیہ نے 60 ہزار روپے کا معاوضے کا تقاضا کیا تھا۔ انہیں 60 ہزار ہی دئے گئے۔
چکوری نے فلم میں دارو کا کردار ادا کیا انہوں نے بھی اپنی مرضی کا معاوضہ وصول کیا۔
ناصر ادیب نئی اور پرانی مولا جٹ کے لکھاری :
ناصر ادیب دی لیجنڈ آف مولا جٹ کے بھی مصنف ہیں جبکہ انہوں نے 43 سال قبل بھی ناصر ادیب نے مولا جٹ کی تحریر کی۔ اس وقت ان کا معاوضہ پندرہ ہزار فکس ہوا تھا تاہم سرور بھٹی کے بقول اس فلم کی کہانی ناصرادیب نے صرف لکھی ہے کیونکہ وہ بولتے اور ناصر ادیب فلم کو لکھتے جاتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مصطفٰی قریشی کے ڈائیلاگز کے لیے میں نے ناصر ادیب سے کہا کہ ان کے لیے چھوٹے ڈائیلاگز لکھیں کیونکہ انہیں پنجابی پر عبور نہیں ہے۔
فلمساز سرور بھٹی نے کہا کہ انہوں نے ناصر ادیب کو 7500 ادا کیے کیونکہ یہ سب تو ان کی خود کی تخلیق تھی جبکہ ناصر ادیب نے صرف لکھا تھا۔ اسی لئے انہیں آدھا معاوضہ دیا گیا۔
مولا جٹ کی یادیں :
سرور بھٹی نے اپنی فلم کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ فلم کی شوٹنگ کے دوران سلطان راہی کی انگلی پر برچھی لگ گئی ۔ جس کے بعد سلطان راہی اپنی رنگ فنگر کو موڑ نہیں سکتے تھے ۔ ان کی انگلی ہمیشہ ہی سیدھی رہ گئی۔
فلم میں بارات کے سین میں دو لڑکیاں ڈانس کر رہی تھیں ، ایک امروزیہ تھی ، جبکہ دوسری انیتا ، انیتا فلمی سین میں ڈانس کرنے میں اتنا مشغول ہو گئیں تھیں کہ ان کا ہاتھ ڈھول سے ٹکرا گیا جس سے وہ معمولی زخمی بھی ہوئیں۔ تاہم انہوں نے پھر بھی اہنا سین مکمل کیا۔
مولا جٹ تقریبا تین ماہ میں مکمل ہوئی۔
سرور بھٹی کا کہنا ہے کہ مولا جٹ کی تیاری میں دو ماہ 26 دن کا مکمل عرصہ لگا جبکہ اس فلم میں 86 سینز کو شامل کیا گیا ۔ سرور بھٹی کا کہنا تھا کہ جبکہ دی لیجنڈ آف مولا جٹ کی تیاری 2013 سے ہی شروع ہوئی ، جو اب جا کر نمائش کے لیے پیش کی جارہی ہے۔