کراچی کے فائراسٹیشن میں 3 فائر فائٹرز کے قتل کا معمہ حل، ملزم کا اعتراف جرم

باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے واردات کی تھی، ملزم کا بیان

کورنگی فائراسٹیشن ميں تين ملازمين کوقتل کرنے والے ملزم کوگرفتارکرليا گیا۔

کراچی کے علاقے منظور کالونی ميں پوليس اوررينجرز نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے کورنگی فائراسٹیشن ميں تين ملازمين کو قتل کرنے والے ملزم کوگرفتارکرليا ہے۔

ترجمان رینجرز کے مطابق کورنگی فائراسٹیشن میں فائرنگ کرکے تین افراد کو قتل کرنے والے ملزم شیخ بلال ظفر فاروقی کو گرفتار کرلیا ہے، ملزم کے قبضے سے اسلحہ، ایمونیشن اور موبائل فون بھی برآمد کرلیا۔

فائراسٹیشن میں فائر فائٹرز کے قتل کا محرک پتہ چل گیا ہے، تہرے قتل کے گرفتار ملزم بلال ظفر نے دوران تفتیش اپنے ابتدائی بیان میں اعتراف جرم کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے واردات کی تھی۔

ملزم بلال ظفر کا کہنا ہے کہ اس کے والد ظفر فاروقی کو 2011 میں اغوا کے بعد قتل کیا تھا، اور فائر فائٹر محبوب اس کے والد کا قاتل ہے۔

ترجمان رینجرز نے بتایا کہ گرفتار ملزم بلال ظفر سی ٹی ڈی کا سابق پولیس اہلکار ہے، اور ملزم اس سے قبل بھی گرفتار ہوکر جیل جاچکا ہے، فائر بریگیڈ کے 3 ملازمین کے قتل کی ایف آئی آرکورنگی عوامی تھانے میں درج ہے، ملزم کے دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

فائر اسٹیشن میں درحقیقت ہوا کیا تھا؟

30 ستمبر اور یکم اکتوبر کی درمیانی شب نامعلوم ملزمان نے کورنگی فائرنگ اسٹیشن میں موجود 4 ملازمین پر فائرنگ کی تھی، جس میں موقع پر دو اور بعد میں ایک ملازم زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا تھا۔

حملے میں بچ جانیوالے ذیشان فرید نے دہشت گرد حملے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ میں کنٹرول روم کے اندر بیٹھا ہوا تھا کہ دو آدمی، جن کے ہاتھوں میں ہتھیار تھے، فائر اسٹیشن میں داخل ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ صحیح وقت تو یاد نہیں تاہم شاید 2:15 بجے ہوں گے، اس وقت فائر مین محبوب خان گیٹ ڈیوٹی پر تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مسلح افراد محبوب کو گھسیٹتے ہوئے کنٹرول روم میں لے گئے اور ان سے پوچھ گچھ کی کہ ٹیم کے دیگر ارکان کہاں ہیں، محبوب نے جواب دیا کہ وہ فائر اسٹیشن کے عقب میں واقع کمروں میں سو رہے ہیں۔

ذیشان نے کہا کہ پھر حملہ آوروں میں سے ایک نے مجھے اور محبوب کو کنٹرول روم میں یرغمال بنایا اور دوسرا ٹیم کے دیگر ارکان کی تلاش میں پیچھے کی طرف چلا گیا، مگر وہ تھوڑی دیر میں واپس آیا اور کہا کہ اسے کوئی دوسرا نہیں ملا، لیکن اس کے ساتھی نے یہ ماننے سے انکار کردیا کہ فائر اسٹیشن میں رات کی ڈیوٹی میں صرف دو لوگ موجود تھے۔

انہوں نے بتایا کہ مسلح شخص نے اپنے ساتھی کو ہم پر نظر رکھنے کو کہا اور پھر وہ خود پیچھے گیا اور دو اور فائر مین عامر قریشی اور محمد ارشاد کو کنٹرول روم لے آیا اور ہمیں ایک قطار میں دیوار کے ساتھ فرش پر بٹھادیا۔

مسلح افراد نے سوال کیا کہ گارڈ ڈیوٹی کون سرانجام دے رہا ہے، محبوب نے جواب دیا کہ وہ گارڈ ڈیوٹی پر ہے، پھر مسلح افراد میں سے ایک نے اسے کلمہ پڑھنے کو کہا، اس نے محبوب کے سر پر بندوق رکھ کر گولی چلائی، لیکن گولی اپنے ہدف سے چھوٹ گئی۔

فرید نے بتایا کہ مسلح شخص نے ایک اور گولی چلائی جس سے محبوب موقع پر ہی دم توڑ گیا، وہ اور دو فائر مین عامر قریشی اور محمد ارشاد خوف سے اٹھ کھڑے ہوئے، پھر عامر قریشی نے حملہ آور کی بندوق چھیننے کی کوشش کی، محمد ارشاد نے اسے گرانا چاہا، میں کنٹرول روم کے گیٹ پر موجود تھا مجھے موقع ملا اور میں بھاگ گیا۔

حملہ آوروں نے پستول میں سائلنسر استعمال کیا

شفٹ انچارج محمد محسن کے مطابق حملے کے وقت فائر اسٹیشن پر عملے کے 7 افراد ڈیوٹی پر تھے، فائر اسٹیشن کے اندر 4 فائر مین، ایک ڈرائیور، ایک حوالدار اور ایک ٹیلی فون آپریٹر موجود تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ڈرائیور ایس ایم شبیر فائر ٹرک کے اندر سو رہا تھا جس کا رجسٹریشن نمبر KFB-606 تھا جو کنٹرول روم سے 20 فٹ دور کھڑا تھا۔

انہوں نے کہا کہ حوالدار شکیل یعقوب اور فائر مین اعزاز کنٹرول روم کے عقب میں واقع کمرے میں سو رہے تھے۔ محسن نے دعویٰ کیا کہ پولیس کے فائر اسٹیشن پہنچنے تک ڈرائیور، حوالدار اور فائر مین کنٹرول روم کے پیچھے سورہے تھے، انہوں نے گولیوں کی آواز تک نہیں سنی۔

محسن کا مزید کہنا ہے کہ زیر علاج ارشاد زخمی حالت میں فائر اسٹیشن کے باہر گیا اور پیٹرول پمپ پہنچا، جہاں اس نے کسی کو پولیس ہیلپ لائن 15 مددگار پر کال کرنے کا کہا۔

واقعے کا مقدمہ نمبر 672/22 ٹیلی فون آپریٹر ذیشان فرید کی مدعیت میں زیر دفعہ 302، 186، 34 اور 7 کے تحت 2 نامعلوم مسلح افراد کیخلاف درج کیا گیا تھا۔

Tabool ads will show in this div