ٹرانسجینڈر بل سے متعلق مفروضات

قیام پاکستان کے 70 سالوں بعد خواجہ سرا کمیونٹی کو پہچان ملی تھی

یہ لوگ ہم سے ڈرتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ ہم لوگ ڈاکٹر، انجینئر بن گئے ہیں تو کہیں ہم پارلیمنٹ میں نہ آجائیں اور ہم میں سے کوئی وزیر یا وزیراعظم نہ بن جائے، انہیں ہمارا ڈر ہے جس کے باعث یہ ایسا کر رہے ہیں۔۔یہ وہ الفاظ تھے جو خواجہ سراؤں کی رہنما نایاب اپنی پریس کانفرنس میں کہہ رہی تھی اور مجھے شرمندگی ہو رہی تھی کہ وہ صحیح کہہ رہی ہے۔ ہمارے معاشرے کا قانون بن چُکا ہے کہ کمزور کو دبایا جائے۔

گلی محلوں اور قصبوں میں دیکھ لیں،ہرکوئی کمزور کو ہی دباتا ہے،جب طاقتورکی باری آٓتی ہے تو کوئی لندن بھاگ جاتا ہے تو کوئی ڈیل کرلیتا ہے اور یہ تو پھر خواجہ سرا ہیں جن کی ایوان میں کوئی نمائندگی نہیں، جن کو آج تک پہچان نہیں مل سکی، جن کو نہ نوکری ملتی ہے نہ کوئی انہیں گلی محلے میں بستا دیکھ سکتا ہے کیونکہ یہ ناچ گانا کرتے ہیں اور وہ مظلوم جنہیں اُن کے سگے ماں باپ قبول نہیں کرتے وہ مذہبی طبقوں کے مطابق حرام ہیں۔

اگرکسی کا حق کھا جائیں وہ حرام نہیں، جھوٹ بولیں حرام نہیں، مذہب میں سیاست کریں،وہ حرام نہیں، اسلام کے نام پرچوراہے بند کریں،عوام کو تنگ کریں، حرام نہیں، قرآن کا علم بیچیں حرام نہیں، مسجد کا چندہ کھا جائیں وہ حرام نہیں البتہ ایک ایسا طبقہ جس کو ہم نے شناخت ہی ناچ گانے کی دے دی ہے وہ حرام ہے کیونکہ معاشرہ انہیں قبول نہیں کرتا،انہیں دبانا چاہتا ہے اس لئے وہ حرام ہے۔ انہی ساری باتوں کے باعث وہ طبقہ جن سے لوگ دعائیں کرواتے ہیں کہ یہ مظلوم ہیں،ان کی دعا خدا قبول کرتا ہے وہ اب مذہبی ٹھیکیداروں کو بد دعائیں دے رہا ہے۔

سولہویں صدی عیسویں میں اسلام عروج پر تھا اور اُس کی وجہ یہ تھی کہ خانقاہی نظام کا دور تھا، اولیائے اللہ کی خانقاہیں تھی جہاں سے دین کا پرچار ہوتا تھا اور باقاعدہ دینی و دنیاوی تعلیم کے بعد کسی کو اجازت ہوتی تھی کہ اب وہ جا کر معاشرے میں تبلیغ کرسکے۔ حال یہ تھا کہ چور، ڈاکو، بدکار ان خانقاہوں میں آٓتے تھے اور تربیت کے مراحل میں وہ ایسے شفاف ہیرے بن جاتے تھے کہ مثال نہیں ملتی تھی کیونکہ اولیائے اللہ اُس دین کے پیروکار تھے جو اللہ کا ہے وہ لوگوں کو محبت سے اللہ کی جانب راغب کر دیتے تھے۔

آج وہ زمانہ آچُکا ہے کہ لوگ اللہ کی جانب راغب ہونا چاہتے ہیں کہ لیکن اُن کو وہ کنارہ نہیں ملتا جو اللہ تک لےجائے کیونکہ یہاں پر ہر کسی نے اپنی اپنی ڈوری پھینک دی ہے اورجس کا سرا ہر جگہ پہنچتا ہے سوائے اللہ کے۔ اب یہ مثال ہی لے لیں کہ خواجہ سرا انسان ہیں، دین خدا کا، دنیا خدا کی لیکن انسانوں پر انسان جینا محال کر رہا ہے۔ قیام پاکستان کے 70 سالوں بعد خواجہ سرا کمیونٹی کو پہچان ملی تھی جب سال 2018 میں ٹرانجینڈر ایکٹ پاس ہوا تھا لیکن صرف شک کی بنیاد پر کہ اس سے مرد مرد سے شادی کرلےگا اور عورت عورت سے شادی کر لےگی، لوگ اپنی جنس بدلوا لینگے، بس اسی شک کی بنا پر قانون ہی ختم کر ڈالو، مظلوم طبقے سے شناخت کھینچ لو، کیونکہ ہم طاقتور ہیں ہم سے زیادہ مذہب کو کوئی نہیں جانتا، ہم نے کتابوں کی کتابیں رٹی ہوئی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ آج کا خواجہ سرا وہ ناچ گانے والا خواجہ سرا نہیں بلکہ ان میں سے بہت پڑھ لکھ گئے، ڈاکٹر اور پالیسی میکرز تک بن چُکے ہیں اور نایاب ٹرانسجیںڈر اُن میں سے ایک ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ بہت سارے عالموں سے زیادہ تعلیمی و مذہبی علم رکھتی ہے۔

سال 2018 میں جب یہ بل پاس ہوا تو کسی کے کان پر جُوں نہ رینگی، رینگنی بھی نہیں چاہیئے تھی کیونکہ ایک مظلوم طبقے کو قیام پاکستان کے 70 سال بعد پہچان ملی تھی، ہم دُنیا کو دکھاتے کہ یہ پاکستان ہیں جہاں پر ہر فرد کو اس کے مکمل حقوق حاصل ہیں۔ یہ ریاست ہے، ماں ہے، جس میں سب ایک جیسے ہیں ریاست کسی کو ترجیح نہیں دیتی لیکن یہاں پر کیونکہ اسلام ریاست ہے اس لئے کچھ لوگ اسلام کو ہی ہتھیار بنا لیتے ہیں جس سے عوام کو بطور ہتھیار استعمال کر لیتے ہیں اور یہی کچھ ٹرانسجینڈر بل میں بھی ہوا جب جماعت اسلام کے واحد سینیٹر مشتاق احمد نے سینیٹ میں اس بل کے اندر ترامیم الیکشن کے آخری سال میں پیش کر دیں اور باقی 4 سال وہ اس کی تحقیقات کرواتے رہے۔ ۔

دین کیا کہتا ہے، سب جائے بھاڑ میں، اوپر سے ہم نے یہ کہہ دیا کہ یہ تو مغرب کا ایجنڈا ہے۔ ٹرانسجنیڈر تو وہ لوگ ہیں جو اپنی جنس تبدیل کرتے ہیں۔ اگر کسی فرد میں کوئی طبی خرابی ہے اور وہ علاج سے وہ ٹھیک ہوسکتا ہے تو کیا وہ اپنا علاج کروانا چھوڑ دے؟ اور کون سا مرد یا عورت اپنی جنس تبدیل کروائے گا جب اُس کا ذہن اور حسیات اُس کی صنف کے متضاد ہوں؟ عجیب بات ہے لیکن معاشرہ تو جذباتی ہے اور کون گہرائی میں جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے باعث خواجہ سراؤں کو ملنے والی پہچان پر ایک بار پھر فل اسٹاپ لگ گیا اور اگر کوئی فرد ایسا کرتا بھی ہے تو کیا ریاست میں ہم جنس پرستی کی کوئی سزا نہیں ؟

جب یہ بل بنایا گیا تواس پرکافی تحقیق کی گئی لیکن اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت سب سے آخر میں ہوئی۔ اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت ضروری ہے کیونکہ کوئی بھی دینی مسئلہ ہو تو اسلامی نظریاتی کونسل ہی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ یہ مسئلہ شرعی طور پر ٹھیک ہے یا غلط، لیکن یہ ایک بہت سنجیدہ اور ٹیکنیکل مسئلہ تھا جس پر میڈیکل اور سائیکلوجیکل پہلووں کو بھی مدنظر رکھنا ضروری تھی۔ آج کل جو دینی مدرسوں میں معیار ہے وہ ہرگز اس چیز کی اجازت نہیں دیتا کہ صرف اسلامی نظریاتی کونسل ہی اس مشکل مسئلے کا حل تلاش کرتی۔

TRANSGENDER BILL

Tabool ads will show in this div