سندھ میں بارشیں اور سیلاب، مویشیوں کی ہلاکتیں ساڑھے 3لاکھ کے قریب پہنچ گئیں
سندھ میں بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لائیو اسٹاک کے شعبے کو 31 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچ چکا ہے جس میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
محکمہ لائیو اسٹاک سندھ کی جانب سے سندھ بھر میں مون سون بارشوں اور سیلاب کے سبب لائیو اسٹاک شعبے کو پہنچنے والے نقصانات کے نئے اعداد و شمار جاری کردیئے ہیں۔
رپورٹ کے کے مطابق 22 ستمبر تک صوبہ بھر میں بھینس، گائے، بکریوں اور دیگر مویشوں کی ہلاکتوں کی تعداد 3 لاکھ 40 ہزار 15 تک پہنچ گئی اور مویشی رکھنے کے شیڈز کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔
دوسری جانب سیلاب سے محفوظ جانوروں کو بھی چارہ اور ادویات دستیاب نہیں، جس کی وجہ سے خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ لائیو اسٹاک نقصانات مزید بڑھ سکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ملک بھر میں گوشت اور دودھ کی قلت پیدا ہوسکتی ہے۔
لائیو اسٹاک سندھ کے اعداد و شمار کے مطابق خیرپور، سانگھڑ، شہید نظیر آباد، نوشہرو فیروز، گھوٹکی، بدین، جیکب آباد، دادو، کشمور، جوہی اور لاڑکانہ میں سب سے زیادہ جانوروں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں، جبکہ ٹنڈو محمد خان، تھرپارکر، ٹنڈو الہیار میں جانوروں کی ہلاکتیں نسبتاً کم ہوئی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبے میں سیلاب سے جانور رکھنے کے 7 ہزار 514 شیڈز مکمل طور پر تباہ ہوگئے، 19 ہزار 484 شیڈز کو جزوی نقصان پہنچا، جس کی وجہ سے اگر ان شیڈز کے جانور بچ بھی گئے ہیں تو کھلے آسمان تلے ہونے کی وجہ سے اب بھی خطرے سے دوچار ہیں۔
سندھ لائیو اسٹاک کے اعداد و شمار کے مطابق صوبہ بھر میں مویشیوں کی ہلاکتوں سے ہونیوالے نقصانات کا تخمینہ 22 ارب 43 کروڑ 18 لاکھ روپے لگایا گیا ہے جبکہ جانوروں کے شیڈز تباہ ہونے کے نقصانات کا تخمینہ 8 ارب 62 کروڑ 80 لاکھ روپے ہے، جس کے نتیجے میں مجموعی لائیو اسٹاک نقصانات 31 ارب 5 کروڑ 98 لاکھ روپے تک پہنچ گئے ہیں۔
متاثرہ علاقوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق کئی علاقوں میں انسان چھت سے محروم ہیں، جانوروں کو کہاں سے چھت فراہم کرے؟، متاثرین کھانے اور ادویات نہ ہونے کی وجہ سے پریشان حال ہیں، حکومت اور فلاحی اداروں کی جانب سے کسی حد تک کھانے پینے کی امداد مل رہی ہے لیکن جانور چارہ نہ ملنے کی وجہ سے مسلسل لاغر ہورہے ہیں اور پانی کی وجہ سے بیمار بھی پڑ رہے ہیں۔
دوسری جانب سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں فصلیں اور چارے کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے، جس کے اثرات سیلاب سے محفوظ علاقوں میں بھی سامنے آرہے ہیں اور چارے کی دستیابی میں مشکل پیش آرہی ہے جبکہ نرخ بڑھ رہے ہیں۔
صدر ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن شاکر عمر گجر کا کہنا ہے کہ ڈیری شعبہ ابتر صورتحال سے دوچار ہے، ڈیری شعبے کی ضرورت کیلئے پہلے ہی چارہ اور دیگر اجناس کے بائی پراڈکٹس کی قلت ہے، اس کے باجود ملک سے ان اشیاء کی ایکسپورٹ بھی جاری ہے۔
شاکر گجر کا کہنا ہے کہ ہم نے وزارت کامرس، وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کو متعدد بار سفارشات بھیجی ہیں کہ اجناس کے بائی پروڈکٹس کی ایکسپورٹ بند کی جائے لیکن اب تک اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
ڈیری فارمرز کے مطابق فوری فیصلے نہیں کئے گئے تو آگے جاکر دودوھ کی قلت پیدا ہوگی اور قیمت بھی مزید بڑھ سکتی ہے، یہی حال گوشت اور دیگر ڈیری پراڈکٹس کی ہوگی۔