سیاست، سیلاب سے پیدا صورتحال اور کرنے کے کام

سیاسی قیادت کی لاپرواہی سے عوام ناخوش

بلوچستان کے اندر آفت اور بربادی کا عالم ہے، صوبے کی حکومت اور اس کے اتحادی، حزب اختلاف دکھائی نہیں دے رہے، بھلا ہو وزیراعظم شہباز شریف کا کہ جن کی خصوصی دلچسپی سے وفاقی ادارے متحرک ہیں، فوج اور ایف سی اپنے حصے کے کام کا حق ادا کررہے ہیں، کمانڈر 12 کور جنرل آصف غفور غالباً تمام متاثرہ علاقوں کا دورہ کرچکے ہیں، متاثرہ علاقوں میں براہ راست جانکاری لی ہے، یہ توفیق صوبے کی حکومتی اشرافیہ کو حاصل نہ ہوسکی۔

صوبے میں سیلاب سے برباد عوام ماتم کناں ہیں جبکہ حکومتی طبقہ سیاسی داﺅ پیچ اور مستقل کے بندوبست میں مگن ہے، اہلیت کا یہ عالم کہ قائمقام گورنر بلوچستان جان محمد جمالی جو کہ بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر ہیں نے الخدمت فاﺅنڈیشن کے مرکزی صدر عبدالشکور سے جعفرآباد میں امدادی سرگرمیوں کی درخواست کی ہے۔

وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے سیلاب میں ڈوبے ضلع لسبیلہ کے حصے بخرے کرددیئے، ضلع کو تقسیم کرکے حب کو الگ ضلع بنایا گیا، جس کا نوٹیفکیشن قائمقام گورنر جان محمد جمالی نے 31 اگست 2022ء کو جاری کیا ہے، ساکران کے بھوتانی برادران وزیراعلیٰ کے شریک کار بنے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ جام کمال نے البتہ اس پر سخت اعتراض اٹھایا ہے۔

جام کمال ذاتی حیثیت میں آفت کے دنوں میں پوری طرح فعال رہے ہیں، اپنے ضلع کے گوٹھ گوٹھ تک گئے، متاثرہ علاقوں اور لوگوں کے مسائل و ضروریات بارے حکام کو مسیجز کرتے، تصاویر اور ویڈیوز بناکر بھیجتے رہے ہیں، حب ضلع کا قیام دراصل جام کمال کو زک پہنچانے کا حربہ بھی ہے، جہاں عبدالقدوس بزنجو نے اپنے سیاسی مقاصد کی صورت گری کر رکھی ہے۔

جام کمال خان نے حب ضلع کیخلاف بلوچستان ہائیکورٹ میں آئینی درخواست دائر کر رکھی ہے، احتجاج بھی کیا ہے، یہ نوٹیفکیشن ایسے وقت میں جاری ہوا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری ہوا ہے، جب اقتدار کی باگیں ایسے ہاتھوں میں ہوں، نیز حزب اختلاف برائیوں اور منفعتوں میں برابر شریک ہوں تو لامحالہ عوام سیاسی لوگوں کی بجائے کسی اور سے شفافیت، موجودگی اور باز پرس کا تقاضہ کریں گے۔

موجودہ وقت بیورو کریسی کی مزید تنزلی مزید بگاڑ کا باعث بن رہا ہے، ذرا پوچھا جائے کہ محکمہ صحت کا سابق سیکریٹری، صالح ناصر کس بات کی پاداش میں منصب سے ہٹائے گئے، وہ کونسا خلاف قانون و ضابطہ کام تھا کہ جس کی منظوری صالح ناصر نے نہیں دی، کوئی پوچھے کرونا کے دوران خلاف ضابطہ و قانون خطیر رقم کی طبی آلات کی خریداری کا ماجرا کیا ہے؟۔

پہلے بھی ایک سیکریٹری نے ادائیگی کا گناہ سر لینے سے انکار کیا تھا اور یہ کہ کس شخصیت کے خاندان کا فرد اس دھندے میں شامل ہے؟۔ انتقامی سلوک کا سامنا دیگر اعلیٰ افسران کو بھی ہے، اچھائیوں کی بجائے برائیاں اکھٹی ہو جاتی ہیں تاکہ کوئی خلل و بندش نہ ہو۔

یہ نظائر دراصل ریاست کیلئے مزید مسائل کا باعث ہیں، آفت زدہ عوام کے پاس جایا جائے کہ ان کی کہاں تک داد رسی ہوئی ہیں، کمانڈر 12 کور لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور مسلسل دورے کرچکے ہیں، ان پر یہ عقدہ کھلا ہے کہ بے سرو سامانی کے عالم میں صوبے کی وزراء شاہی کہاں کھڑی ہیں، بلوچستان کے اندر نظام مواصلات تباہ ہے، فائبر آپٹک، ریلوے ٹریکس، بجلی کا نظام درہم برہم ہوا ہے، پل اور سڑکیں بہہ چکی ہیں، کوئٹہ تباہی سے دوچار ہے۔

چناں چہ اب نئے زاویے اور انجینئرنگ سے منصوبوں کی تکمیل پیش نظر رکھنی چاہئے، صوبے کے بعض مقامات پر بجلی، گیس، سڑکیں اور پل ماضی میں بھی سیلابوں کی زد میں آئے ہیں، کوئٹہ کو سکھر سے ملانے والی قومی شاہراہ این 65 پر بی بی نی نی پل جگہ جگہ سے ٹوٹا ہے، “در بھی” کے مقام پر بھی شاہراہ کئی مقامات سے بہہ چکی ہے، حالیہ سیلابی ریلے کی شدت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نئے، پائیدار اور محفوظ ڈیزائن کے منصوبے بنائے جائیں، اس شاہراہ پر پنجرہ پل اور سڑک “دربھی” کے مقام تک مکمل طور بہہ گئی۔

اس مقام کو پنجرہ پل اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس مقام پر انگریز دور میں لوہے کا “پنجرہ نما پل” قائم تھا، جو 1986ء کے سیلاب میں بہہ گیا، اب چونکہ شاہراہ عارضی طور پر چھوٹی ٹریفک کیلئے کھول دی گئی ہے، اس پر دن رات این ایچ اے کی جانب سے کام ہوا۔ چیئرمین این ایچ اے کیپٹن ریٹائرڈ خرم آغا اور دوسرے ماہرین و حکام موقع پر موجود تھے، کام کی فوج کی جانب سے مسلسل فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی ہے۔

این ایچ اے نے “نیسپاک” سے کنسلٹنسی لے لی ہے، یقیناً پل سیلابی ریلوں کی شدت اور اونچائی کو مد نظر رکھ کر تعمیر اور ڈیزائن کرنے کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، یہاں متبادل شاہراہوں کی تعمیر کی ضرورت بھی پیش نظر ہو، یعنی این 65 قومی شاہراہ پر گوگرت کے مقام سے ڈھاڈر کے قریب تک پہاڑوں کے درمیان سے شاہراہ کی تعمیر ہوگی تو کسی بھی صورتحال میں زمینی مواصلاتی تعطل کا سلسلہ پیدا نہ ہوگا، دوزان کے مقام پر بائی پاس کی ضرورت ہے، جو این ایچ اے کے پیش نظر بھی ہے۔

کوئٹہ ژوب شاہراہ اب تک بند ہے، ٹریفک کا سارا دباﺅ کوئٹہ ڈیرہ غازی خان شاہراہ پر ہے، جہاں “فورٹ منرو” کے مقام پر رش کی وجہ سے شاہراہ روزانہ گھنٹوں بند رہتی ہے، شاہراہوں کی بندش کی وجہ سے خوراک اور اشیائے ضروریہ کی ترسیل متاثر ہے، بلوچستان کے زمینداروں کے پھل اور سبزیاں سیلاب بہا کر لے گیا، بچی فصل یا تو مارکیٹ میں پڑی پڑی خراب ہورہی ہے، یا اونے پونے داموں فروخت ہورہی ہے، پنجاب سے گندم اور آٹا نہ آنے سے آٹے کی قلت پیدا ہوگئی ہے اور 50 کلو تھیلے کی قیمت 6 ہزار روپے (120 کلو گرام) تک پہنچ گئی ہے۔

پانی ہر سال گیس پائپ لائن ہر سال بہا کر لے جاتا ہے، بی بی نانی کے مقام پر اس بار بھی 12 انچ اور 24 انچ قطر پائپ لائن کا 850 فٹ کا ٹکڑا بہہ گیا، دس یوم تک گیس معطل رہی ہے، اس دوران لوگ لکڑیاں اور کوئلہ جلانے پر مجبور تھے، اس وجہ سے منافع خوری کا بازار گرم ہوا، ایل پی جی کی قیمتیں 100 فیصد بڑھائی گئیں، لہٰذا اگر پائپ لائن سیلابی راستے کی بجائے سڑک کنارے پہاڑ کے ساتھ بچھائی جائے تو ہر سال ٹوٹنے اور بہہ جانے کا احتمال مزید نہ رہے گا۔

ڈھاڈر سے گوگرت تک بجلی کے کھمبوں کا گرنا معمول ہے، ان سیلابوں میں کوئٹہ سبی 220 کے وی، 132 کے وی اور دادو خضدار 220 کے وی کے کئی کھمبے گرگئے، بجلی کی سپلائی کا بحران ہنوز جاری ہے، کوئٹہ میں بیشتر علاقوں میں اب بھی 15 سے 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے، جملہ موبائل فون کمپنیوں کے نیٹ ورک متاثر ہیں، کمپنیوں کی غفلت سے صارفین مشکلات میں گھرے ہیں، لوڈ شیڈنگ کے دوران نیٹ ورک جزوی یا مکمل طور پر بند رہتا ہے، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی قلت ہے، ٹینکرز کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، نظام زندگی بری طرح متاثر رہا اور اب بھی صورتحال معمول پر نہیں آسکی ہے، لہٰذا چند کلو میٹر علاقے میں ندی کی بجائے کھمبے پہاڑوں پر نصب ہوں تو آئندہ مشکل سے دوچار نہ ہونا پڑے گا۔

کوئٹہ کے سیاحتی مقام ہنہ اوڑک میں سرپل پر پانی ہنہ جھیل کی طرف چھوڑا نہیں گیا، ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سر پل پانی کے جھیل پر جو ٹھیکیدار کام کررہا ہے، نے علاقے کے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر ایری گیشن محکمہ کے اہلکاروں کو پانی ہنہ جھیل کی طرف موڑنے سے زبردستی روکا، جولائی کے سیلاب میں بھی یہ عمل کیا گیا اور اگست کے سیلاب میں بھی پانی جھیل ہنہ میں نہ چھوڑا گیا، اگر پانی چھوڑا جاتا تو نقصان زیادہ نہ ہوتا، پچھلے سال محکمہ پی اینڈ ڈی نے “بابر کچ” ڈیم کا پی سی ون منظور کروا کر وفاقی حکومت کو بھیجا تھا جو وفاقی ترقیاتی بجٹ میں 2022-23ء میں شامل نہیں ہوا، ڈیم میں پانی جمع ہونے کے بعد سبی، مٹھڑی اور مختلف علاقے سیلاب سے بچ جائیں گے۔

البتہ وہاں کے لوگوں کے ڈیم بارے خدشات رفع کرنے ہوں گے، دوئم ڈیم تعمیر ہونے کی صورت میں ایک اندازے کے مطابق کوئٹہ کو 80 ملین گیلن یومیہ پینے کا پانی مل سکے گا، جو کوئٹہ کے پانی کی طلب و ضرورت پوری کرسکتا ہے، کوئٹہ کو 65 ملین گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے۔ کلام آخر یہ کہ ان جملہ معاملات و امور میں فوج کی خصوصی توجہ درکار ہے۔

BALOCHISTAN FLOOD

FLOOD 2022

تبولا

Tabool ads will show in this div

تبولا

Tabool ads will show in this div