اولاد کا نہ ہونا، کیا ذمہ دار صرف عورت ہوتی ہے؟
انٹرووینشنل ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر کاشف شازلی نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر شادی کے فوراً بعد ہی خاندان والے یہ اُمید لگالیتے ہیں کہ جلد سے جلد بچے کی پیدائش ہوجائے اور نیا نویلا جوڑا والدین کے منصب پر فائز ہوجائے تاہم ابتدائی مہینوں میں حمل نہ ٹھہرنے کے بہت سے عوامل ہوسکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق زیادہ تر کیسز میں عورت 3 سے 6 ہفتوں میں حاملہ ہوسکتی ہے لیکن کچھ کیسز میں یہ دورانیہ دو سال تک بھی جاسکتا ہے، ایسی صورتحال میں یہ ضروری نہیں ہے کہ عورت یا مرد میں سے کسی میں کوئی ابنارملٹی (خرابی) ہو، دو سال تک حمل نہ ٹھہرنا بھی نارمل ہی کہلائے گا۔
سماء ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے کاشف شازلی نے کہا کہ اگر دو سال تک حمل نہ ٹھہرے تو پھر یہ ابنارمل کہلائے گا ، ایسی صورت میں مرد اور عورت دونوں کے ٹیسٹ ہونے چاہئیں، ہمارے معاشرے یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے اگر اولاد نہیں ہو رہی تو اس کی ذمہ دار عورت ہے، بہت سارے کیسز میں مرد کے تولیدی جثیمے یا تو کم ہوتے ہیں یا اُن جثیموں میں حرکت کے مسائل یعنی موٹیلٹی ڈس آرڈر ہوتا ہے یا پھر مرد کی پرفارمنس میں ایسی کچھ تبدیلیاں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اولاد نہیں ہوپاتی۔
انہوں نے کہا کہ خواتین میں بھی مسائل ہوسکتے ہیں، اُن میں فائبرائیڈز یا بچہ دانی میں پیدائشی طور پر کوئی ابنارملٹی ہوسکتی ہے، اسی طرح ایگ یا تولیدی بیضوی سیل جس فیلوپیئن ٹیوب سے گزر کر بچہ دانی تک آتے ہیں، اُن کے اسٹرکچر میں کوئی مسئلہ ہوسکتا ہے، کچھ خواتین میں یہ نالیاں بند ہی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وہ بیضہ (Ovum) بچہ دانی (Uterus) تک نہیں پہنچ پارہا ہوتا۔
ڈاکٹر شازلی نے بتایا کہ کچھ خواتین میں ہارمونل ڈسٹربنس (Hormonal Disturbance) بھی ہوسکتی ہیں، اس لئے کوئی ایک وجہ نہیں ہے جس کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکیں کہ بچہ نہ ہونے کی عورت ہی ذمہ دار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مردوں میں بھی مسائل ہوسکتے ہیں اور دنیا بھر میں بانجھ پن کے مسائل پر کام کرنیوالے مراکز صرف عورت ہی نہیں مرد کے ٹیسٹ بھی تجویز کرتے ہیں۔
بانجھ پن کی جانچ کیلئے ٹیسٹ
ڈاکٹر کاشف شازلی نے بتایا کہ اگر دو سال تک حمل نہیں ٹھہرا تو عام طور پر بنیادی سے ٹیسٹ ہیں جن میں خواتین کا الٹرا ساؤنڈ کیا جاتا ہے جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ بچہ دانی کا اسٹرکچر نارمل ہے یا نہیں، فیلوپیئن ٹیوبز میں پانی تو نہیں بھرا ہوا، جسے ہائیڈروسیلپنکس (Hydrosalpinx) کہتے ہیں۔ کوئی فائبرائیڈز یا پیلوک انفلیمیٹری ڈیزیز (Pelvic Inflammatory Disease) کا کمپوننٹ تو نہیں ہے، اس کے علاوہ کچھ بنیادی ہارمونل لیولز چیک کئے جاتے ہیں کہ ان میں کوئی ابنارملٹی تو نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ خواتین کی کلینیکل ہسٹری بھی دیکھی جاتی ہے کہ پیریڈز (حیض) نارمل آرہے ہیں، اس کی مقدار کتنی ہے، خون نارمل طریقے سے آرہا ہے یا نہیں۔
ڈاکٹر کاشف شازلی کا کہنا ہے کہ اسی طرح مردوں کے ٹیسٹ میں ٹیسٹس (خصیوں) کا الٹرا ساؤنڈ شامل ہے، جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ان میں کوئی اسٹرکچرل ابنارملٹی تو نہیں ہے، 15 سے 20 فیصد مردوں میں خون کی نالیاں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں جسے ویریکوسیل (Varicocele) کہتے ہیں، یہ خون کی نالیاں اگر بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہوں تو خصیوں کا نارمل میکنزم یعنی تولیدی جثیمے بنانے کا عمل کافی حد تک متاثر ہوتا ہے، جس کی وجہ سے تولیدی جثیموں کی مقدار کم ہوجاتی ہے، اس کی وجہ سے بھی بانجھ پن ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مردوں کے مزید ٹیسٹ بھی کروائے جاتے ہیں، جس میں ہارمونل لیول چیک کرنے کیلئے ایف ایس ایچ، ایل ایچ اور ٹوٹل ٹیسٹِسٹیرون لیول ٹیسٹ (Total Testosterone Level test) کئے جاتے ہیں، ان ہارمونز کا تعلق بھی بانجھ پن سے ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بنیادی قسم کے ٹیسٹ مردوں اور عورتوں کی ابنارملٹی چیک کرنے کیلئے کئے جاتے ہیں۔
بیٹی کی پیدائش
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بیٹی کی پیدائش کو عورت کا قصور تصور کیا جاتا ہے، اس لئے یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ سائنس سے ثابت شدہ ڈیٹا کے مطابق بچے یا بچی کی پیدائش کا پورا کا پورا انحصار مرد کے تولیدی جثیموں پر ہوتا ہے، یعنی بیضہ (Ovum) کے اندر مردانہ اور زنانہ دونوں طرح کے کروموسوم موجود ہوتے ہیں لیکن جو مردانہ تولیدی جثیمے ہیں جن کو ہم اسپرمز کہتے ہیں اُس میں یا تو عورت بنانے والا جثیمہ ہوتا ہے یا مرد بنانے والا جثیمہ، اس لئے یہ مرد کے تولیدی جثیموں پر منحصر ہوتا ہے کہ بچی کی پیدائش ہوگی یا بچے کی، اس غلط فہمی کو دور ہونا چاہئے کہ اس کی ذمہ دار عورت ہے۔
خواتین میں ماہواری کے مسائل
انہوں نے کہا کہ جہاں تک ماہواری کے مسائل کا تعلق ہے، اس کی بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، اس کی سب سے عام وجہ تو فائبرائیڈ ہے، اگر ہارمونل تبدیلیاں ہوئی ہیں، خدانخواستہ اگر کوئی میلیگنینسی (Malignancy) یا کینسر کا امکان ہے، بعض دفعہ کچھ انفیکشنز کی صورت بھی ماہواری میں ڈسٹربنس آسکتی ہے لیکن سب سے عام وجہ فائبرائیڈز ہی ہیں اور یہ بھی تین طرح کے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر کاشف نے بتایا کہ کھال کے اوپر موجود فائبرائیڈ کو سب سیروزل فائبرائیڈز (subserosal fibroid) کہتے ہیں، کھال کے اندر فائبرائیڈ کو ٹرانس میورل فائیبرائیڈ (transmural fibroid) کہتے ہیں، کھال کے اندرونی حصے کے ساتھ موجود فائبرائیڈ کو سب میوکوزل فائیبرائیڈ (submucosal fibroid) کہتے ہیں۔
ٹرانس میورل اور سب میوکوزل فائیبرائیڈرز بلیڈنگ ڈس آرڈر (Bleeding Disorders) کی سب سے بڑی وجوہات ہیں، دنیا بھر میں 12 سے 15 فیصد خواتین میں یہ رسولیاں قدرتی ہوتی ہیں، یہ رسولیاں عام طور پر کینسر کی وجہ نہیں ہوتیں لیکن مسائل پیدا کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے خواتین سنیاس یعنی Menopause کی طرف بڑھتی ہیں، ان کے جسم میں ہارمونل تبدیلیاں ہوتی ہیں، ہارمونز کا لیول کم ہونا شروع ہوتا ہے تو ان رسولیوں کا سائز بھی چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے اور 50، 60 یا 65 سال کی عمر میں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ رسولیاں قدرتی طور پر چھوٹی ہوجاتی ہیں۔
فائبرائیڈز کا علاج
ڈاکٹر کاشف شازلی نے کہا کہ فائبرائیڈز کا ایک علاج تو یہ ہے کہ بچہ دانی پوری نکال دی جائے، یہ ان خواتین میں بہتر ہوتا ہے جن کی فیملی پوری ہوچکی ہو اور انہیں مزید بچوں کی خواہش نہ ہو، ایسی خواتین ہسٹیرکٹمی (Hysterectomy) کرواسکتی ہیں، بچہ دانی نہیں ہوگی تو بلیڈنگ بھی نہیں ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ دوسرا آپشن مائیومیکٹمی (Myomectomy) کہلاتا ہے جس میں بچہ دانی کو کھول کر صرف فائیبرائیڈز کو نکال دیا جاتا ہے یہ میجر سرجری ہوتی ہے، مائیومیکٹمی ان خواتین کی ہوتی ہے جو نوجوان ہوں یا جنہیں مزید بچوں کی خواہش ہو۔ اسی طرح تیسرا آپشن یوٹرائن فائیبرائیڈ ایمبولائزیشن (Uterine Fibroids Embolization) ہے جسے پوری دنیا میں سب سے جدید طریقۂ علاج کہا جاتا ہے اور یہ انٹرووینشنل ریڈیالوجسٹ آفر کرتے ہیں، اس میں بغیر سرجری کے رسولیوں کی خون کی نالیوں کو انجیوگرافی کرکے بند کردیا جاتا ہے اور اس کے نتائج بھی بہت اچھے ہیں۔
ڈاکٹر کاشف شازلی نے کہا کہ مائیومیکٹمی کے بعد حمل ٹھہرنے کے امکانات بھی کم ہوجاتے ہیں، اسی طرح یوٹرائن فائیبرائیڈ ایمبولائزیشن میں بھی حمل ٹھہرنے کے امکانات نسبتاً کم ہوجاتے ہیں لیکن بالکل ختم نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ اگر ہارمونل ڈسٹربنس ہے اور بلیڈنگ ڈس آرڈر ہے تو انڈوکرائنالوجسٹ بھی اس کا علاج کرتے ہیں، اگر کوئی انفکشن ہے تو انفیکشیس ڈیزیز کا ماہر (ماہر امراض متعدی) اس کا علاج کرتا ہے، ایسے کیسز گائناکولوجسٹ بھی ڈیل کرتی ہیں، اگر کسی خاتون میں کینسر کا شبہ ہو تو اس کیلئے کچھ ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یوٹرائن فائبرائیڈ ہر 100 میں سے 15 خواتین کو ہوسکتا ہے، اس کی عمر 9 سال سے 65 سال تک ہوسکتی ہے اور نوجوانی کی عمر میں یہ زیادہ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لڑکیوں میں جتنے ہارمونز زیادہ ہونگے اتنی ہی فائبرائیڈرز کی بڑھوتری زیادہ ہوگی، یہ قدرتی ہوتے ہیں یہ ایک طرح سے بڑے سائز کے مسے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر کاشف شازلی نے کہا کہ یوٹرائن بلیڈنگ کو بالکل ختم کرنا شاید ناممکن ہو، اس پر پوری دنیا میں ریسرچ ہورہی ہے، دنیا کی 15 فیصد خواتین اس مرض میں مبتلا ہیں، یہ ایک بہت بڑا نمبر ہے۔
ہیومن پیپولیما وائرس
ان کا کہنا تھا کہ ایک وائرس ہیومن پیپولیما وائرس (ایچ پی وی وائرس) ہے اور اس کا گہرا تعلق بچہ دانی کے منہ کے کینسر سے ہے، مغرب میں یہ وائرس بہت عام ہے، کچھ ریسرچز پاکستان میں بھی ہوئی ہیں جن کے مطابق پاکستان میں بھی ایچ پی وی وائرس بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر کاشف شازلی نے کہا کہ اب پوری دنیا میں اس کی ویکسین لگتی ہے یہ ویکسین ایک خاص عمر میں خواتین لگوا لیں تو ایچ پی وی وائرس سے بچا جاسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں بچہ دانی کے منہ کا کینسر اور یوٹرائن بلیڈنگ بھی نہیں ہوگی۔
ان کا کہنا ہے کہ پیلوک انفلیمیٹری ڈیزیز کا تعلق گڈ ہائیجین سے ہے، میاں بیوی پاکیزہ رہیں تو اس انفیکشن کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔
ختنہ کروانے کے فائدے
ڈاکٹر کاشف شازلی نے بتایا کہ جن مردوں کے ختنہ ہوئے ہوتے ہیں ان میں کینسر کے امکانات کم ہوتے ہیں اور یہ ریسرچ سے ثابت ہے، جن مردوں کی ختنہ نہ کئے گئے ہوں ان میں کینسر کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں اور وہ جنسی بیماریوں کی منتقلی (سیکچوئل ٹرانسمیٹڈ ڈیزیز) کو پھیلانے کا سبب بھی بنتے ہیں، کیونکہ جو کھال بچپن میں ختنہ کرکے ہٹا دی جاتی ہے وہ کھال خود ایسے جراثیم کو پروان چڑھانے اور پھیلانے میں مددگار ثابت ہورہی ہوتی ہے۔
بچہ دانی کے منہ کا کینسر
ڈاکٹر کاشف نے کہا کہ زیادہ بچے پیدا کرنے سے بچہ دانی کے منہ کا کینسر نہیں ہوتا اور نہ ہی کم عمری کی شادی کی وجہ سے بچہ دانی کا کینسر ہوتا ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ چھوٹی عمر میں بچیوں کی شادی نہ کرنے سے متعلق جو دلیل ہے کہ انسانی جسامت کا جو مکمل ہونا ہے یعنی ہڈیوں کا مضبوط ہوجانا، باڈی کا نارمل فنکشن گین کرلینا ہے یہ عام طور پر 16 سے 20 سال کی عمر میں ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ تاخیر سے شادی کے نتیجے میں بھی بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں، تاخیر سے شادی کے بعد اس بات کے امکانات ہوں گے کہ اگر بچے کی پیدائش ہوگی تو کوئی پیدائشی نقص ہو یا یہ بھی ممکن ہے کہ تاخیر سے شادی کے نتیجے میں شاید حمل ہی نہ ٹھہرے۔
انٹرووینشنل ریڈیالوجسٹ نے کہا کہ بہت ہی کم عمری میں بچی کی شادی بھی مسائل کا سبب بنتی ہے، یعنی جس بچی کی ابھی اپنی باڈی ہی میچور نہیں ہے، اگر شادی کے بعد اس بچی کے حمل ٹھہر بھی جائے گا تو بچے کی ہڈیوں کے بننے کیلئے جو کیلشیم چاہئے ہوگا یا جو وٹامنز اور منرلز چاہئے ہونگے وہ ماں کے اپنے اندر پورے نہیں ہوں گے تو وہ اس بچے کو کیسے پورے ملیں گے، اس لئے زچگی کے وقت مسائل ہوسکتے ہیں۔
ایپیڈیورل انستھیزیا
ان کا کہنا تھا کہ زچگی کے وقت خواتین کوایپیڈیورل انستھیزیا (Epidural Anesthesia) دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بچے کی پیدائش میں آسانی ہوجاتی ہے، جو درد پیدائش کے وقت خواتین کو ہوتا ہے وہ کم ہوجاتا ہے، خواتین کی اکثریت شکایت کرتی ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد اُن کی کمر میں درد شروع ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس درد کا ایپیڈیورل انستھیزیا سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ سائنس سے ثابت بھی نہیں، اس پر ریسرچ ضرور ہونی چاہئے۔
اووریز کے اندر پانی کی جھلیاں بن جانا
ڈاکٹر کاشف شازلی نے بتایا کہ ایک اور مسئلہ جو ہمارے ہاں بہت عام ہے جو نوجوانی اور سنیاس ہونے کے بعد بھی موجود رہتا ہے، اووریز کے اندر پانی کی جھلیاں بن جاتی ہیں، بعض دفعہ خون اور چربی کی جھلیاں بن جاتی ہیں، یہ مختلف طرح کی سسٹ زیادہ تر بینائن یعنی خطرناک نہیں ہوتیں لیکن کچھ سسٹ ایسی ہوتی ہیں یا کچھ کینسر اووریز سسٹ کی طرح نمودار ہوتی ہیں یعنی اُن میں پانی ہوتا ہے جن میں کینسر سیلز ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ نوجوانی سے بڑھاپے تک نمودار ہوسکتی ہیں، اس کے نتیجے میں درد ہوسکتا ہے، سرجری کے ذریعے انہیں نکال دیا جاتا ہے، کچھ سسٹ بڑے سائز کی ہوتی ہیں جو کینسر کا سبب بنتی ہیں، اگر ایم آر آئی میں کینسر کا شبہ ظاہر ہو تو اس کی پروپر انویسٹی گیشن اور علاج ہوتا ہے، اگر کینسر پھیلا ہوا نہیں ہے تو اسے نکال دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر کاشف نے بتایا کہ اگر خواتین میں ماہواری کے دوران بے ترتیبی آرہی ہے، خاص طور پر اگر وہ سنیاس کی عمر کے دوران ہیں تو اس کی ہارمونل، ریڈیالوجیکل اور کلینیکل ہر طرح سے انویسٹی گیشن ضروری ہے، اگر ایسی خواتین کا پیٹ کا نچلا حصہ بڑھ رہا ہے تو وہ فائبرائیڈز یا اووریز میں سسٹ کی وجہ سے بڑھ رہا ہوگا یا پیٹ میں پانی بھرنے کی وجہ سے بھی ایسا ہوسکتا ہے، لیکوریا سمیت مختلف قسم کے ڈسچارجز کی وجہ سے بھی ایسا ہوسکتا ہے۔
ان کے مطابق ان سب کو پراپر انویسٹی گیٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اگر بیماری شروع میں پکڑ لی جائے گی تو صحیح علاج ممکن ہے اور جتنا لیٹ تشخیص ہوگی اتنا ہی پیچیدگیوں کے امکانات زیادہ ہوں گے، اس کیلئے الٹراساؤنڈ اور ہارمونل ٹیسٹ ہوتے ہیں، طبی تشخیص کی جاتی ہے، اگر گائناکولجیکل ایشو ہیں تو گائناکولوجسٹ کو دکھانا چاہئے اگر خدانخواستہ تشخیص کینسر کی ہو تو پھر کیسنر کے ڈاکٹر کو دکھانا چاہئے۔